
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے اور سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور انھوں نے کہا کہ عمران خان بائیو میڑک کروانے کے لیے آئے تھے کہ انھیں گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیسے کسی شخص کو سپریم کورٹ ہائی کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ خود کو سرنڈر کر چکا ہو۔
جب عدالت کو بتایا گیا کہ نوے کے قریب رینجرز کے اہلکاروں نے اس وقت بائیو میڑک کے دفتر پر دھاوا بولا جب عمران خان وہاں پر موجود تھے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اس واقعہ کے بعد کوئی شخص بھی عدالت میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’نیب نے توہین عدالت کی ہے اور انھوں نے عدالتی تقدس کو پامال کیا ہے۔‘
تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ نیب کے حکام ملزم کو گرفتار کرنے سے پہلے ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے رابطہ کرتے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’نیب کے حکام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے، نیب کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ عوامی نمائندوں کو ایسے ہی گرفتار کرتا ہے۔‘
اس دوران عمران خان کے ایک اور وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ’جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت رینجرز کے ساتھ نیب کا کوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔‘







