سہ فریقی مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ

امن دُنیا کے لیے ناگزیر ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض جنگی خبط میں مبتلا طاقتوں اور عناصر کے باعث دُنیا کا نا صرف امن سبوتاژ ہوتا رہا، بلکہ کروڑہا انسانوں کی زندگیاں بُری طرح متاثر رہیں، جنگ زدہ خطوں کا انفرا سٹرکچر برباد ہوگیا اور وہاں کے لوگوں کے لیے زیست جہنم سے عبارت قرار پاتی رہی۔ اس حوالے سے المیے در المیے انسانی تاریخ کا حصہ ہیں۔ دُنیا بھر میں ہٹلر اور اُس کے پیش روئوں نے بدامنی، قتل و غارت گری اور ایسی دیگر خرابیوں کو تیزی کے ساتھ بڑھاوا دیا۔ آج بھی دُنیا بھر کی ممالک اپنے دفاعی بجٹ پر کُل مجموعی ملکی آمدن کا بہت بڑا حصہ صَرف کرتے ہیں۔ امریکا، بھارت، اسرائیل، روس وغیرہ عصر حاضر میں اس حوالے سے سب پر بازی لے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ممالک اپنے دفاعی بجٹ پر بہت بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور روس کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دُنیا کی خوش حال معیشتیں ہیں، لیکن بھارت ایسے غریب ملک کا دفاعی بجٹ اتنا زیادہ ہونے پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ جس ملک کی آبادی کا بڑا حصہ سڑکوں پر زیست بسر کرتا ہو، جہاں کی اکثریتی آبادی بیت الخلاء کی سہولتوں سے محروم ہو، اُس کا دفاع پر اتنی زیادہ رقم جھونک دینا یقیناً غریب عوام کے منہ پر سنگین طمانچہ قرار پاتا ہے۔ امن و سکون دُنیا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہ بات کاش ان قوتوں کو سمجھ آسکے اور وہ امن کی ریت کو پروان چڑھا سکیں۔ سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ ہے۔ دوست ملک چین نی اس کے لیے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے اور اس کی تکمیل کے لیے پُرامید ہے، تاہم افغانستان اور اردگرد میں شدید بدامنی اور اس کے پڑوسی ممالک پر منفی اثرات کے باعث صورت حال تشویش ناک دِکھائی دیتی ہے۔ خطے کی ترقی اور خوش حالی کے لیے افغانستان میں امن ناگزیر ہے، یہ امر سی پیک کی کامیابی کی کلید بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ افغانستان کی بہتری اور ترقی کے لیے پاکستان شروع سے ہی کوشاں رہا ہے۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ہر موقع پر افغانستان کا ساتھ نبھایا ہے۔ خطے میں امن کی خاطر پاکستان ابتدا سے ہی سرتوڑ کوششوں میں مصروف عمل رہا ہے۔ چین بھی اس میں وطن عزیز کا بھرپور ساتھ نبھاتا چلا آیا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز پانچویں چین، افغانستان، پاکستان کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے۔ اس ضمن میں پانچویں چین، افغانستان، پاکستان وزرائے خارجہ مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ پاک، چین، افغان سہ فریقی مذاکرات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو، چینی وزیر خارجہ چن گانگ اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے شرکت کی، اجلاس میں تینوں فریقین نے سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ پُرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان خطے کے مشترکہ مفاد میں ہے، باہمی احترام اور فائدے کے اصولوں پر مبنی سلامتی، ترقی اور تعاون کو مزید وسعت دینے کا عزم کیا گیا۔ اجلاس میں سیکیورٹی، منظم جرائم اور منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام سمیت ٹی ٹی پی، ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ وغیرہ کو اپنی سرزمین استعمال کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ادھر افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہمسایہ ممالک کے چیلنج ایک دوسرے سے مختلف نہیں اور دونوں ممالک نے بہت سے حالات دیکھے، اب مل کر ایک دوسرے کے ساتھ چلیں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان میں ہماری حکومت کو 20ماہ ہوچکے ہیں، اللہ کے کرم سے بہت سے مسائل پر قابو پالیا ہے، ہم نے حکومت آنے کے بعد چیلنجز پر قابو پانے کی کوشش کی، دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات میں پابندیاں بڑا چیلنج ہیں، پابندیوں کی وجہ سے بینکوں کو خام مال درآمد کرنے میں مشکلات ہیں جب کہ بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں، ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مہنگائی کم اور افغان کرنسی کی قدر مستحکم ہوئی، چیلنجز اور عالمی پابندیوں کے باوجود افغانستان کی معیشت میں بہتری آئی اور افغان حکومت نے بجٹ بیرونی امداد کے بغیر پیش کیا جب کہ نجی ٹی وی کے مطابق قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم سے متعلق اسلام آباد کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کریں۔ امیر خان متقی نے ان خیالات کا اظہار اپنے دورے کے آخری روز انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کا تعلق ہے، ہم حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مل بیٹھیں اور اپنے طور پر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے متعلق سوالات کے جواب میں امیر خان متقی نے کہا کہ یہ پابندی مستقل نہیں ہے، لیکن حکومت کے آئندہ احکامات تک یہ پابندی برقرار رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت خواتین کی تعلیم کو غیر اسلامی نہیں سمجھتی۔پاکستان، چین اور افغانستان کے سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعاون بڑھانے پر متفق ہونا بلاشبہ خوش کُن امر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ٹی ٹی پی، ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ وغیرہ کو اپنی سرزمین استعمال کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ بھی حوصلہ افزا ٹھہرتا ہے۔ مذاکرات کے پانچویں دور کو مجموعی طور پر بہترین پیش رفت سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان ممالک کو مل کر خطے کو لاحق سنگین مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر امن و امان کی صورت حال کو ہر صورت قابو کیا جائے۔ خطے کے لوگوں کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ افغانستان وہ بدقسمت علاقہ ہے جو عرصۂ دراز تک جنگ و جدل کا شکار رہا۔ بدلے کی آگ میں پورے افغانستان کو برباد کر دیا گیا۔ انفرا سٹرکچر کو تباہ کیا گیا۔ علم کی شمعیں جو جل رہی تھیں، اُنہیں بُجھادیا گیا۔ افغانستان کو ترقی سے ہمکنار کرنے، امن و امان اور دیگر مسائل کے حل کے لیے نا صرف پاکستان اور چین بلکہ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک کو بھی آگے آنا چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ امن و امان کی صورت حال سی پیک منصوبے کی شاندار کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
تھیلیسمیا کی روک تھام کیلئے راست اقدامات ناگزیر
وطن عزیز میں صحت کی صورت حال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی، یہاں امراض تیزی سے پھیلتے اور پنپتے ہیں۔ ایسا کوئی مرض نہیں جو یہاں اپنا بھرپور وجود نہ رکھتا ہو۔ بیماریوں کے تدارک کے لیے حکومتی سطح پر محض بیانات کی طویل فہرست ہے، عوام بھی اس معاملے میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور بے شعوری میں امراض کو بڑھاوا دینے کی وجہ بنتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے بڑھانے کی کاوشیں سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتیں۔ اوپر سے ان ہسپتالوں کی حالتِ زار سب پر عیاں ہے۔ عوام کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ بڑی مشکلوں سے اُنہیں یہ سہولت میسر آپاتی ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہات میں صحت کی سہولتیں مفقود ہونے کے باعث انہیں اس واسطے خاصے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے مریض کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ ایسے عالم میں صحت عامہ میں بہتری کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔ پیر کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں تھیلیسمیا کا عالمی دن منایا گیا، یہ بیماری انسانی جسم میں خون بنانے کے قدرتی عمل کو روک کر شدید پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے۔ تھیلیسمیا کا عالمی دن منانے کا مقصد دُنیا بھر میں اس مرض کے حوالے سے شعور و آگہی بیدار کرنا تھا۔ تھیلیسمیا خون کی موذی بیماری ہے اور یہاں اس کے مریض ہر سال تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیی سرکاری سطح پر کوششوں کا فقدان پایا جاتا ہے، اوپر سے عوام کا بھی اس کے پھیلاؤ میں کردار کچھ یوں ہے کہ لوگ شادی کے موقع پر دولہا دلہن کا تھیلیسمیا ٹیسٹ کرانے سے اجتناب برتتے اور اسے معیوب تصور کرتے ہیں۔ اگر کسی شادی شدہ جوڑے میں تھیلیسمیا کی علامات نہ بھی پائی جاتی ہوں اور وہ تھیلیسمیا مائنر کے شکار ہوں تو ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں تھیلیسمیا میجر کے خدشات خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وطن عزیز میں ہر سال پانچ ہزار بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جن کی دیکھ بھال انتہائی مشکل ہوتی ہے، کیونکہ انہیں ہر کچھ روز خون کی بوتلیں لگانا پڑتی ہیں۔ تھیلیسمیا کی روک تھام مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ تھیلیسمیا سے بچاؤ کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ اس کے تدارک کے لیے حکومت سنجیدہ اقدامات یقینی بنائے۔ لوگوں میں اس سمیت دیگر امراض کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا کی جائے۔ میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ ضروری ہے کہ شادی سے قبل لڑکا لڑکی احتیاطی تدابیر کے طور پر تھیلیسمیا کا ٹیسٹ ضرور کروائیں، یوں اگر جوڑے کے ٹیسٹ سے پتا چل جائے کہ ان کی اولاد تھیلیسمیا میں مبتلا ہوسکتی ہے تو انہیں شادی کرنے سی روک کر ایک پوری نسل کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت صحت کی صورت حال میں بہتری کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے۔ صحت کے لیے بجٹ میں معقول اور مناسب حصہ مختص کیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ بڑھائی جائے اور ان میں علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں یقینی بنائی جائیں۔







