Editorial

توانائی بحران پر قابو کیلئے بڑی پیش رفت

وطن عزیز میں پچھلے کچھ مہینوں سے گیس کی قلت کے حوالے سے صورت حال خاصی تشویش ناک رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض سے گیس قلت کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر لوگ ایل پی جی کو استعمال کرتے ہیں، اس بار اس کے دام بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے ہوئے دکھائی دیے۔ اس موقع پر ناجائز منافع خوروں نے بھی لوگوں کی جیبوں پر بھرپور نقب لگائی۔ اس حوالے سے آئے روز خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ اب بھی حال ایسا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں کے مختلف علاقوں میں قدرتی گیس کی قلت کے باعث لوگ ایل پی جی کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایل پی جی مہنگی ہونے کی وجہ سے اُن کو اس پر متواتر کھانا پکانا خاصا مہنگا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بازاروں، ٹھیلوں، ریڑھی بان بھی ایل پی جی پر کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ مہنگی ایل پی جی اُن کے لیے مسلسل عذاب بنی ہوئی ہے۔ لوگ گاڑیوں میں بطور ایندھن بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ایل پی جی کے نرخوں میں ہوش رُبا اضافے کے باعث ان سب کو پچھلے کچھ مہینوں کے دوران مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو جب اقتدار ملا تو ملکی معیشت کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھا۔ توانائی کا بدترین بحران تھا۔ سابق حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں سے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ ہر شے کی قلت اور بحران کی کیفیت تھی۔ مہنگائی کے نشتر عوام پر بُری طرح برس رہے تھے۔ بے روزگاری میں ہولناک اضافے دیکھنے میں آرہے تھے۔ پاکستانی روپیہ بے توقیری کی انتہائوں پر تھا۔ معیشت کے حوالے سے بدترین صورت حال تھی۔ توانائی کے بحران کے حوالے سے بھی حالات خاصے تشویش ناک تھے۔ موجودہ حکومت نے خاصے کٹھن دور میں اقتدار سنبھالا۔ جب سے وہ برسراقتدار آئی ہے، ملک و قوم کی صورت حال کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے اُس نے چند مشکل فیصلے بھی کیے ہیں۔ چند ایسے اقدامات ممکن بنائے ہیں، جن سے صورت حال آہستہ آہستہ بہتر رُخ اختیار کررہی اور آئندہ وقتوں میں ان کے مثبت ثمرات ملک و قوم پر ظاہر ہوں گے۔ معیشت کی بحالی کے ساتھ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بھی حکومت سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے اقدامات کررہی ہے۔ جس کے اچھے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔ اسی حوالے سے تازہ خبر کے مطابق پاکستان میں سستی ایل پی جی کی درآمد کا آغاز ہوگیا ہے۔ ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پاکستان میں توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان کو مائع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی درآمد شروع ہوگئی۔ چمن میں کسٹمز حکام نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ برآمدگی معاہدے کے تحت ترکمانستان سے بذریعہ افغانستان پہلی کھیپ 160ٹن ایل پی جی پر مشتمل تین بائوزر چمن بارڈر پر باب دوستی کے راستے پاکستان پہنچ گئے۔ ضابطے کی کارروائی کے بعد ان ٹینکرز کو پشاور روانہ کیاجائے گا جب کہ مزید10ٹینکر جن میں 600ٹن ایل پی جی موجود ہے، سپن بولدک سے کلیئرنگ کے لیے بارڈر ٹریڈ ٹرمینل پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب قندھار کسٹمز چیف مولوی محمد حامد احمد کے مطابق ترکمانستان سے 50ٹینکر کارگو سپن بولدک پہنچ گئے، جو کلیئرنگ مراحل طے کرنے کے بعد پاکستان منتقل کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وسط ایشیا سے پاکستان کے لیے افغانستان ٹرانزٹ روٹ سے گیس کی برآمد میں کوئی رکاوٹ یا تاخیر نہیں ہوگی۔ دوسری جانب ایل پی جی پلانٹ اونرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر سید نسیم آغا نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ 6ماہ قبل اسلام آباد میں ترکمانستان کے سفیر کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں ایک اعلیٰ سطح کا وفد ترکمانستان گیا اور ترکمانستان کے ساتھ ایران سے 25فیصد کم ریٹ پر معاہدہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکمانستان کے پلانٹس میں ایل پی جی کا پہلا تجارتی سودا کرکے پاکستانی تاجروں کو ٹریڈ کی نئی راہیں تلاش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ یہ خبر یقیناً موجودہ حالات کے تناظر میں خوش گوار ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ گیس کی شدید قلت کی صورت حال میں سستی ایل پی جی کی درآمد سے یقیناً حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔ توانائی بحران پر قابو پانے میں خاصی مدد ملے گی۔ اس بات پر موجودہ حکومت کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس درآمد سے ایل پی جی کے دام جو آسمانوں پر پہنچے ہوئے ہیں، اُن کے نرخوں میں معقول کمی واقع ہوگی۔ اس سے اُن غریب عوام کی خاصی اشک شوئی ہوسکے گی، جو انتہائی مہنگی ایل پی جی گھروں میں کھانا پکانے وغیرہ کے لیے استعمال کرکے آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترکمانستان سے ایل پی جی کی درآمد کا سلسلہ مستقل طور پر جاری رہے کہ گیس کی قلت کا کوئی اندیشہ جنم نہ لے سکے۔ اس طرح ایل پی جی کے ریٹ مناسب سطح پر رہیں گے اور قوم کو وافر گیس دستیاب رہے گی۔ دوسری جانب حکومت کو معیشت کی بہتری کے حوالے سے مزید سنجیدہ کوششوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کی بحالی کے مشن پر نیک نیتی کے ساتھ گامزن رہا گیا تو ضرور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

عالمی یوم مزدور اور مہنگائی کا عذاب!

گزشتہ روز مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا۔ محنت کشوں کو اُن کے حقوق کی فراہمی کی خاطر یہ یوم ہر سال برسہا برس سے منایا جاتا ہے۔ اس روز کی مناسبت سے پروگرام، سیمینارز وغیرہ ہوتے ہیں، اس موقع پر اہم شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے، جن کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن یکم مئی گزرتے ہی سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے اور وہ بلند بانگ دعوے اگلے برس کے یوم مئی کے لیے اُٹھا کر رکھ دئیے جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں تو یہ روش برسہا برس سے اختیار کی جارہی ہے۔ اس کا سب سے کرب ناک پہلو یہ ہے کہ جس کے لیے یہ دن منایا جارہا ہوتا ہے، اُس کے حالات وہی رہتے ہیں، اُس کے شب و روز میں کوئی تبدیلی یا آسانی نہیں آتی، بلکہ زیست کی سختیاں دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہیں، اُسے حقوق ملتے ہیں نہ خون پسینہ بہانے کا صحیح محنتانہ۔ وہ اپنے دن کے موقع پر بھی روزی کی تلاش میں جگہ جگہ کی خاک چھان رہا ہوتا ہے۔ یہ احوال ہے ہمارے محنت کش کا۔ پچھلے پانچ سال سے ملک بھر میں مہنگائی کے نشتر بری طرح برس رہے ہیں۔ غربت کی شرح میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ محنت کشوں کے لیے اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالنا پہلے ہی دُشوار تھا، اب مزید مشکل ہوگیا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات ہر شے مہنگی ہے۔ آٹا، چینی، دالیں، چاول وغیرہ سب کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہیں، اس سے سب سے زیادہ متاثر مزدور طبقہ ہوا ہے۔ گو حکومت کی جانب سے امدادی پیکیجز متعارف کرائے گئے، جس سے کچھ تو اشک شوئی ہوئی، لیکن غریب مزدوروں کی اکثریت مستفید نہ ہوسکی۔ ہوش رُبا گرانی کی موجودہ صورت حال میں حکومت کو صحیح معنوں میں محنت کش طبقے کی مشکلات کے ازالے پر توجہ دینی چاہیے۔ اُن کے دلدر دُور کرنے چاہئیں۔ حکومت کو اس کا اندازہ بھی ہے اور وزیراعظم میاں شہباز شریف غریبوں کی مشکلات کا اپنے کئی بیانات میں ذکر بھی کرچکے ہیں۔ مزدوروں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے سنجیدہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ انہیں مہنگائی کے عذاب سے بچانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس کے علاوہ مزدوروں کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ بہت ہوچکا، اب ہمارے محنت کشوں کو اُن کے حقوق کی فراہمی ناگزیر ہوچکی ہے۔ اُن کی زندگیوں میں آسانی اور بہتری اب لازمی آجانی چاہیے۔ اُن کے تمام مصائب دُور کرنے کے بندوبست ہونے چاہئیں۔ اُن کو معقول محنتانہ اور مراعات کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اُن کے بچے بھی اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ بیمار ہونے پر صحت کی معیاری سہولتیں اُن کو میسر ہوں۔ بہت لیت و لعل سے کام لیا جا چکا۔ اب مزدور طبقے کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ ان کی زندگیوں میں خوش حالی لائی جائے۔ اگر یہ خوش حال ہوگئے تو یقیناً ملکی ترقی میں یہ پہلے سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں گے اور ملک ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کرے گا۔

جواب دیں

Back to top button