دہشت گردی کیخلاف راست اقدامات ناگزیر

نائن الیون حملے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا۔ افغانستان 20سال تک امریکی جنگ کی بھٹی میں جلتا رہا۔ لاتعداد لوگ مارے گئے۔ امریکی فوجیں دو عشروں تک افغان سرزمین پر موجود رہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہکی جنگ میں افغانستان بے پناہ متاثر ہوا۔ لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں۔ افغان معاشرہ لمبے عرصے تک جنگ و جدل کی کیفیت میں رہا۔ پاکستان امریکہ کی اس جنگ میں اُس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا، پڑوسی ہونے کے باعث اس جنگ کے انتہائی منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے۔ شرپسندوں نے افغانستان سے یہاں آکر دہشت گرد کارروائیاں کیں، وطن عزیز میں دہشت گردی کے عفریت نے بُری طرح سر اُٹھایا۔ ملک کے طول و عرض میں بم دھماکوں، خودکُش حملوں اور دیگر تخریبی کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جب ملک کے کسی حصے میں دہشت گردی کا واقعہ نہ ہوتا ہو۔ ان دہشت گردی کی کارروائیوں میں 80ہزار سے زائد بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے۔ پاک افواج کے افسران اور جوانوں کی شہادتیں بھی ہوئیں۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح روزگار کے لیے گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام کو صحیح سلامت گھر بھی پہنچ سکیں گے یا نہیں۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد پاک افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے راست آپریشنز کیے۔ آپریشن ضرب عضب، ردُالفساد اور دیگر کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ متعدد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ لاتعداد کو گرفتار کیا گیا اور جو بچ گئے، انہوں نے یہاں سے فرار میں عافیت جانی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بہتر ہوئی۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ افواج پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پاکر دُنیا کو انگشت بدنداں کر دیا۔ اکثر ممالک اور اداروں نے افواج پاکستان کی اس پر ستائش کی۔ اب پھر سے پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات متواتر رونما ہورہے ہیں۔ خصوصاً کے پی کے اور بلوچستان تخریبی کارروائیوں سے زیادہ متاثر نظر آرہے ہیں۔ روزانہ ہی کوئی نہ کوئی شرپسندی کا واقعہ پیش آرہا ہے۔ دہشت گردی کا عفریت پھر سر اُٹھا رہا ہے۔ پڑوسی ممالک کی سرحدوں سے دہشت گرد عناصر سیکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ گھات لگاکر کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ خصوصاً افغان سرحد سے حملے متواتر سامنے آرہے ہیں۔ گویا ملک میں امن و امان کی صورت حال کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گرد عناصر کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت بھی دہشت گردی کے سنگین مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ اسی لیے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان عسکریت پسندوں کو لگام دینے میں ناکام رہا تو پھر پاکستان ملک کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرے گا۔ گزشتہ روز امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو خصوصی انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ملک میں دہشت گردی کے حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کررہے ہیں۔ گزشتہ دورے پر ہم نے کابل کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ مہربانی کریں، ہمارے پڑوسی اور بھائی ہونے کے ناتے جو کچھ بھی افغان سرزمین سے ہورہا ہے وہ آپ کی ذمے داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کچھ مقامات پر ہمیں کچھ اقدامات کرنے ہوں گے، جو یقینی طور پر افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہوں گی، جہاں ہمیں انہیں نشانہ بنانا پڑے گا، ہمیں انہیں اس لیے نشانہ بنانا ہوگا کیونکہ ہم زیادہ دیر تک ایسی صورت حال کو برداشت نہیں کر سکتے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان نے بہت اچھا جواب دیا، شاید ان کے لیے تحریک طالبان پاکستان کو اس مرحلے سے منقطع کرنے میں وقت لگے گا جو وہ یقیناً منقطع کرنا چاہتے ہیں اور یہ میرا تاثر ہے کہ وہ منقطع کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس کشمکش میں ہیں۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم ایسی صورت حال پر نہیں جانا چاہتی جہاں ٹی ٹی پی کے ساتھ معاملات کشیدہ ہوں اور ہم ایسا کچھ کریں جو کابل میں ہمارے پڑوسیوں اور بھائیوں کو پسند نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی ابھی بھی افغان سرزمین سے کام کررہی ہے اور امریکی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی مدد کی ضرورت پر انہوں نے آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کی مثالیں دیتے ہوئے کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہم اس لعنت سے خود نمٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے ملک میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کو سابقہ حکومت کی سنگین غلطی قرار دیا۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے فلور پر اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ المیہ یہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں سے لوگوں کو لاکر یہاں بسایا گیا ہے، جن کو دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ان ذمے دار افراد کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کو یہاں لانا ہے اور ان لوگوں کو امن والی آبادی میں بسایا گیا، جس کی وجہ سے امن تباہ ہوگیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ان لوگوں میں سے کچھ کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور کچھ لوگ زمان پارک میں بیٹھے ہوئے ہیں تو یہ لوگ صرف کچے میں نہیں بلکہ زمان پارک میں بھی موجود ہیں جو عمران خان کی بھی پشت پناہی کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کا سر کُچلنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بالکل بجا فرمایا۔ پڑوسی ملک افغانستان کو اپنی سرزمین سے ایسی مذموم کارروائیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان بارہا اس جانب اُس کی توجہ مبذول کرا چکا ہے۔ اب اسے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے بڑا قدم اُٹھانا پڑے گا اور وہ اس کا استحقاق بھی رکھتا ہے۔ پاک افواج وطن کے دفاع سے غافل نہیں۔ دُنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے اکیلے نمٹنی کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ پاک افواج کی خدمات ملک عزیز کو میسر ہیں، جن کا شمار دُنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور جو پہلے بھی دہشت گردوں کی کمر توڑ چکی ہیں۔ اب بھی شرپسندوں کو قابو کرنا اُن کے لیے ہرگز مشکل نہ ہو گا۔ ملک سے دہشت گردی کے مکمل قلع قمع کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔
ای بائیکس اور رکشا اسکیم، احسن اقدام
کسی بھی ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی خوش قسمتی کہ اس کی آبادی کا 60فیصد سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ان کو بہتر تعلیم اور تربیت کے مواقع میسر ہوں تو ستاروں پر کمند ڈالنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ نوجوانوں کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے دُنیا بھر کی حکومتیں کوشاں رہتی ہیں، تاکہ وہ ملک و قوم کے لیے کارگر ثابت ہوسکیں۔ وطن عزیز میں بھی موجودہ حکومت نوجوانوں کی بہتری کے لیے اقدامات ممکن بنا رہی ہے۔ اس حوالے سے خوش کُن اطلاع یہ ہے کہ حکومت نے نوجوانوں کی سہولت کے لیے ای رکشا اور بائیکس سکیم کی منظوری دے دی۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نوجوانوں کے لیے ای رکشا اور بائیکس کی منظوری دے دی، اس سکیم کے تحت نوجوانوں کو تین سال کے لیے پانچ لاکھ روپے تک کا بلاسود قرض دیا جائے گا، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پی ایس ایم پنجاب زون کے رمضان المبارک سے عیدالفطر تک 20ہزار میٹرک ٹن چینی 95روپے فی کلو کے حساب سے عوام کو فراہم کرنے کے فیصلے کی بھی توثیق کردی، وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے زیر صدارت ای سی سی نے ای بائیکس اور رکشا کی عوام کو فراہمی وزیراعظم کے یوتھ بزنس اور ایگریکلچرل لون سکیم کے تحت دینے کی منظوری دے دی۔ یہ بلاشبہ حکومت کا بڑا فیصلہ اور احسن اقدام ہے، اس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس کی ضرورت بھی خاصی شدت سے محسوس کی جارہی تھی، کیونکہ وطن عزیز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو ہوش رُبا اضافہ دیکھنے میں آیا، ایسا ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ روپے کی بے وقعتی اور ڈالر کی اونچی اُڑان کا بھی اس میں بڑا عمل دخل تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ الیکٹرانک پر چلنے والی گاڑیوں میں بجلی کا خرچ کم ہوتا ہے۔ یہ ماحول دوست بھی ہیں۔ دُنیا بھر میں وہیکلز کو الیکٹرانک پر منتقل کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں یہ سکیم برمحل معلوم ہوتی ہے۔ ای بائیکس اور ای رکشا سکیم کے ذریعے نوجوانوں کو آسان قسطوں پر قرض کی سہولت میسر آسکے گی، جس سے وہ اپنی سہولت کے مطابق استفادہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سکیم میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ دوسری جانب حکومت کو نوجوانوں کی مزید بہتری اور آسانیاں فراہم کرنے کے لیے اور بھی سکیمیں متعارف کرانی چاہئیں۔







