جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس

چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیاہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز میں 254 واں کور کمانڈرز اجلاس منعقد ہوا۔ 27 اور 28 دسمبر کو منعقدہ اجلاس میں فوج کے پیشہ ورانہ اور تنظیمی امور کا مکمل جائزہ لیا گیا اور دہشت گردی کیخلاف بلاتفریق لڑنے اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق اس ناسور کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سیزفائر کے خاتمے کے اعلان کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کو عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔ جہاں اسی ہزار سے زائد شہدا کی قربانیوں کا اعتراف ہوتا ہے وہیں پاک فوج کا بھی ذکر آتا ہے کہ پاک فوج نے محدود وسائل کے باوجود دنیا کی طویل ترین اور یکسر مختلف نوعیت کی جنگ میں کامیابی حاصل کی، جس میں دشمن نہیں تھا مگر عام شہریوں کے درمیان میں موجود رہ کر اُنہی کو نشانہ بنا رہا تھا لہٰذا کروڑوں شہریوں میں ایسے تخریب کاروں کو تلاش کرکے اُن تک پہنچنا قطعی آسان نہ تھا مگر پاک فوج اور اِس کے ذیلی اداروں نے محدود وسائل کے باوجود جدید ذرائع استعمال کرنے والے دہشت گردوں تک پہنچ کر اُن کا قلع قمع کیا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری اِس جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی لیکن افسوس اِس کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبات کیے جاتے رہے، ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکہ نے نیٹو کے سہارے بیس سال افغانستان میں موجود رہ کر دہشت گردوں کا خاتمہ کیا یا پھر پاک فوج نے چہار اطراف سے ٹوٹ پڑے دشمنوں کو جہنم واصل کیا۔ زیادہ افسوس ناک تو اُن طاقتوں کا رویہ رہا ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کا نعرہ بلند کرتے ہمہ وقت کہیں نہ کہیں پڑائو ڈال کر اُس ریاست کو تباہ و برباد بلکہ کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں مگر جب پاکستان دہشت گردی سے دوچار تھا اُس وقت انہی طاقتوں کی ناک کی نیچے افغانستان سے بھارت دہشت گردوں کو پاکستان روانہ کررہا تھا اور عسکریت پسندوں کے ذریعے بلوچستان اور قبائلی علاقوں کو میدان جنگ بنایا ہوا تھا، مگر اِس کے باوجود اُدھر سے ’’ڈو مور‘‘ کے نعرے بلند ہوتے رہے بلکہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کرکے ریاست کے خلاف مقامی افراد کو مشتعل کرکے انہیں شدید ردعمل دینے کے لیے اُکسایا، لہٰذا بلاتردد سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان بیس سال سے زائد جس دہشت گردی کا مقابلہ کرتا رہا اُس دہشت گردی کے پیچھے کون کون تھا، افغانستان پر کون قابض تھا اور کس کے ناک کے نیچے درجن بھر قونصل خانے دہشت گردوں کی عالمی تنظیموں کو افغانستان میں منظم کرکے پاکستان کے خلاف میدان میں اُتارا جنہوں نے نہتے پاکستانیوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا ،ایک طرف دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر ڈھنڈورا پیٹنا اور دوسری طرف اپنی ہی ناک تلے دہشت گردی کے نیٹ ورک چلتے دیکھنا عالمی طاقتوں کی دوغلی حکمت عملی ہے، مگر واضح رہنا چاہیے کہ اگرپاکستانی قوم قربانیاں پیش نہ کرتی تو خدانخواستہ دہشت گردی کا یہ عفریت کم و بیش پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا، کیونکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور کوئی ملک نہیں ہوتا، ان کا مقصد صرف اور صرف دہشت پھیلانا ہوتا ہے، حالانکہ کوئی بھی مذہب اِس کی اجازت نہیں دیتا۔بھارت ،پاکستان کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا تھااسی لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی )،بلوچستان لبریشن آرمی اوردوسری تنظیمیں سرکاری تنصیبات ،بے گناہ شہریوں اورسکیورٹی فورسز کونشانہ بنارہی تھیں۔پاکستان نے بھارت کے گھنائونے عزائم کئی بار عالمی برادری کے سامنے ثبوتوںکے ساتھ پیش کیے لیکن ابھی تک بھارت کے معاملے پر سکوت طاری ہے، لہٰذا ایک طرف بھارت، پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے بلکہ جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں جنوبی ایشیا سمیت دوسری جگہوں پر سرگرم ہیں، ان سب کو مالی اعانت کررہا ہے مگر پھر بھی خاموش رہ کر اُس کے توسیع پسندانہ عزائم کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صدق دل کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دیناچاہیے تھا اور دہشت گردی کی ماں بھارت کو عالمی پابندیوں کی زد میں لایا جانا چاہیے تھا مگر افسوس کہ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول پر لڑنے والے پاکستان کو ہی مختلف اوقات میں عالمی پابندیوں کی زد میں لایاجاتا ہے اور بھارت کے معاملے پر یکسر خاموشی رکھی جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کی طویل ترین جنگ میں کامیابی نے پوری قوم اور پاک فوج کا حوصلہ بلند کیا ہے، ہم بطور قوم بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ جنگ اپنی قوت بازو اور اپنے وسائل سے لڑنی ہے، اسی لیے صف اول میں سکیورٹی فورسز ہیں تو ان کے شانہ بشانہ پوری قوم کھڑ ی ہے، ہمیں یقین ہے کہ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کی نئی تاریخ رقم کرے گی کیونکہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والے اپنے بیٹوں کے ساتھ کھڑی ہے۔







