سیاسی جنگ پارلیمان میں لڑی جائے

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے کہا ہے کہ پارلیمان میں بیٹھ کر انتخابی اصلاحات اور نیب اصلاحات کا حصہ بنیں ، اگر سڑکوں پر رہے تو حکومت بات نہیں کرے گی ۔ اگر آپ نے اسمبلی میں کردارادانہ کیاتو پھرجنہوں نے اپنا کام کرنا ہے، انہیں روک نہیں سکیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے چند ماہ قبل تحریک انصاف کی قیادت کو انتہائی صائب مشورہ دیا تھا کہ استعفوں کی منظوری میں جلد بازی نہ کریں سوچ لیں۔ عوام نے پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے، اس لیے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے، ملک کی معاشی حالت بھی دیکھیں، پی ٹی آئی کو اندازہ ہے کہ 123 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے کیا اخراجات ہوں گے؟۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو یہی مشورہ وزیراعظم میاں شہبازشریف اور دیگر تجربہ کار سیاست دان بھی دے چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود قومی اسمبلی سے استعفوں کی منظوری اور خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کو اٹل فیصلہ قرار دیاجارہا ہے، باوجود اِس کے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور بعض مواقعوں پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ہی نہیں بلکہ دونوں اسمبلیوں کے بیشتر اراکین اسمبلی کی تحلیل کے حق میں نہیں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے کئی اراکین اسمبلی بھی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کو تیار نہیں ، لہٰذا تحریک انصاف استعفے دینے کے معاملہ پر ابھی تک یکسو نہیں اور بظاہر سپیکر قومی اسمبلی بھی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کو سیاسی مصلحت کی وجہ سے منظور نہیں کررہے۔ ہم جناب چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے متفق ہیں کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی چھوڑنے کی بجائے،
ایوان میں موجود رہ کر اتحادی حکومت کا سیاسی لحاظ سے مقابلہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ حزب اختلاف میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی تعداد قومی اسمبلی کے ایوان میں دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ تھی، لہٰذا مضبوط اپوزیشن کے ساتھ اتحادی حکومت کا مقابلہ کیا جاسکتا تھا اور نیب ترامیم سمیت جن معاملات پرتحریک انصاف نے سپریم کورٹ آف پاکستان اور دوسری عدالتوں سے رجوع کیا ہے، شاید اِس کی نوبت ہی نہ آتی اور بھرپور طاقت کے ساتھ یہ ترامیم روکی جاسکتی تھیں، مگر تحریک انصاف کی قیادت نے قومی اسمبلی کو چھوڑنے ہی بہتر سمجھا اور اب صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل بھی اُسی کا تسلسل ہے تاکہ اتحادی حکومت قبل ازوقت عام انتخابات کا اعلان کرے۔مگر کیاحزب اختلاف میں بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر رہنا پارلیمانی سیاست کی نفی نہ ہوگا؟ اگرآئندہ ہر منتخب حکومت کی حزب اختلاف ایوان میں آئینی کردار اداکرنے کی بجائے سڑکوں پر ہی احتجاج کرتی رہے گی تو کیا ایوانوں میں یکطرفہ قانون سازی نہ ہوگی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ابتک تحریک انصاف نے سڑکوں پر ہر جمہوری حق استعمال کرکے دیکھ لیا ہے اور بالآخر اب قومی اسمبلی سے استعفوں اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اگر وفاقی حکومت اِس پر بھی دبائو میں نہیں آتی اور کوئی نئی راہ تلاش کرلیتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ افسوس کہ ہمارے ہاں پارلیمان کو ویسا احترام آج تک نہیں دیاگیا جیسا مہذب دنیا کے پارلیمانوں کو دیا جاتا ہے، لہٰذا ہم وہ تمام مطالبات سڑکوں پر پیش کرتے ہیں جو دراصل ایوانوں میں پیش ہونے چاہئیں اور ملک و قوم کے مفاد میں زیادہ سے زیادہ بحث و مباحثہ کے بعد قانون ساز ی عمل میں آنی چاہیے اور یہی جمہوری طریقہ ہے، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اور ایوان ہی جمہوری لڑائی، لڑنے کی اصل جگہ ہے، تحریک انصاف کی قیادت کو غور کرنا چاہیے کہ آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے حزب اقتدار کو خالی میدان دے دینا مناسب فیصلہ ہے ؟







