وزیراعظم شہبازشریف کی فکر انگیز باتیں

ملکی معیشت کی زبوں حالی پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جب حلف اٹھایا تو مجھے بھی علم نہیں تھا کہ پاکستان کی معیشت اتنی زیادہ تباہ ہو چکی ہے اور پاکستان دیوالیہ ہونے جارہا ہے ، آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہوچکا تھا لیکن مخلوط حکومت اور اداروں کی کاوشوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ دنیا میں کساد بازاری ہے، تیل و گیس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں تاہم عوام پریشان نہ ہوں مخلوط حکومت اور ادارے ملک کو مشکل سے نکالیں گے۔ وزیراعظم پاکستان دوران خطاب اکثر ایسی بات کہہ دیتے ہیں جو قومی اخبارات کی شہہ سرخیوں کی جگہ لے لیتی ہے۔ قبل ازیں وہ مختلف مواقعوںپر ماضی کی تمام حکومتوں کو خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں اور یہی ان کی خوبی ہے کہ وہ ایسی کڑوی باتیں کہتے ہوئے ذرا بھی نہیں رکتے اورروانی میں بول دیتے ہیں لہٰذا جہاں تک معیشت کی زبوں حالی کا معاملہ ہے، تو ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں اور ترجیحات کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم لمحہ موجود میں معیشت، دہشت گردی، غربت، افراط زر، پسماندگی سمیت کئی کلنک ماتھے پر لگاکر اقوام عالم کے سامنے کھڑے ہیں، کوئی بھی نو منتخب حکومت آئے، اِس کو سب سے پہلے دوست ممالک کے پاس جانا پڑتا ہے تاکہ نظام مملکت چلانے کے لیے امداد حاصل کی جاسکے، لہٰذا موجودہ ملکی حالات کو بدقسمتی قرار دینا بھی بدقسمتی ہے کیونکہ آج ہم جن بحرانوں کا سامنا کررہے ہیں یہ قسمت کا کھیل نہیں بلکہ ماضی کے حکمرانوں میں دور اندیشی اور اہلیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ ہمارے سامنے ہمسایہ ممالک اقوام عالم کے لیے ترقی کے میدان میں مثال بنے ہیں لیکن ہم صرف ان کی مثالیں دینے پر ہی اکتفا کرتے آئے ہیں ہم نے کبھی اُن کی پیروی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جنہوں نے اپنی قوم کو دنیا کے لیے مثال بنایا۔ ماضی میں اکثر سیاست دان جو حکمراں بھی رہے، کہتے ہوئے سنے گئے کہ جمہوریت کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ملک پیچھے رہ گیا ، حالاں کہ ہمارے نزدیک حکمرانوں کی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونا اِس کی وجہ ہے۔ ہم نے کبھی مسائل ، ان کے اسباب اور حل پر غور ہی نہیں کیا۔ اگر آمریت ملک پر مسلط رہی تو اس کی وجہ بھی سیاست دانوں کی باہمی لڑائیاں تھیں اور بلاشبہ آج بھی سیاست دان تیسری قوت کی طرف دیکھنے کو برا نہیں سمجھتے حالانکہ ایسا سوچنا بھی آزاد ملک کی جمہوریت کی موت ہے۔ کونسی سیاسی قوت دعویٰ کرتی ہے کہ اُس کو آئینی مدت پوری کرنے دی گئی اور حزب اختلاف نے اِس کے مینڈیٹ کو تسلیم بھی کیا اور
اسے آسانی سے کام کرنے دیا، بلاشبہ کوئی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرتی کیونکہ ہماری بے صبری سیاست بھی عجیب ہے، اول تو کسی بھی جماعت کو دو تہائی اکثریت ملتی نہیں اگر مل بھی جائے تو جاتے جاتے یہی کہاجاتا ہے کہ انہیں کام نہیں کرنے دیاگیا، اِس سے زیادہ افسوس ناک صورتحال اور کیا ہوگی کہ ایک سیاسی جماعت جس کو عوام حکمرانی کا مینڈیٹ دیتے ہیں، اُس کے حلف اٹھاتے ہیں حزب اختلاف سڑکوں پر نظر آتی ہے ، اول تو انتخابات کے نتائج کو اُسی روز متنازع بنادیاجاتا ہے، اگلے مرحلے میں منتخب حکومت کے خلاف پہلے ہی دن سے سڑکوں پر احتجاج، جلسے ، جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیاجاتا ہے جو اُس حکومت کو گھر بھیجنے تک جاری رہتا ہے، اِس دوران تیسری قوت سے بھی رابطے کیے جاتے ہیں جس کا واحد مقصد برسراقتدار جماعت کو کام کرنے سے روکنا اور جلد ازجلد اس کے اقتدار کا خاتمہ کرکے خود مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے، لہٰذا جب حزب اختلاف ہی حزب اقتدار کو سالہا سال الجھائے رکھے گی تو کوئی حکومت کیسے ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کا پوری تندہی اور توجہ سے مقابلہ کرسکتی ہے؟ سیاسی کھینچاتانی بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کا تسلسل برقرار نہ رہنے کی بنیادی وجہ سیاسی قیادت کا عدم برداشت ہے، اسی طرح کوئی بھی جماعت برسراقتدار آکر سب سے پہلے سابقہ حکومت کی معاشی، خارجی اور داخلی پالیسیوں کو تبدیل کرتی ہے اور ہم اسی کو موجودہ زبوں حالی کی بنیادی وجہ قراردیتے ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک تب تک بحرانوں سے باہر نہیں نکل سکتا ، جب تک وہاںبحرانوں کے خاتمے کے لیے پالیسیوں کو تسلسل سے جاری نہ رکھا جائے، ہمارے سامنے ترقی یافتہ ممالک کی مثال موجود ہے کہ وہاں حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود ان کی خارجی، داخلی اور معاشی پالیسی برقرار رہتی ہے مگر افسوس یہاں سب سے پہلے انہی کو تبدیل کیاجاتا ہے یوں ہم پھر اسی نقطے پر آن کھڑے ہوتے ہیں جہاں چار ، پانچ سال پہلے تھے۔ بلاشبہ معیشت کو درپیش موجودہ لرزہ دینے والے ہیں لیکن کیا موجودہ حکومت بقیہ آئینی مدت میں ملک کو معاشی بحران سے باہر نکال لے گی اور کیا قرضوں کا بوجھ اور ڈیفالٹ کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ تو ماضی میں ایسا کبھی ہوا اور نہ ہی آئندہ ہوگا، لہٰذا جب تک سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد کو اولین ترجیح قرار دیکر، تمام تر سیاسی اختلافات کو بھلاکر حکمت عملی طے نہیںکرتی اور اِس کو بہر صورت تسلسل سے جاری نہیں رکھاجاتاتب تک ہم معاشی بحران سے قطعی باہر نہیں نکل سکتے، معاشی پالیسی پر سبھی کو اس طرح متفق ہونا چاہیے جیسے 1973 کے آئین پر متفق ہیں تاکہ حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں پالیسی تبدیل نہ ہو ۔







