Editorial

پنجاب میں سیاسی بحران

 

گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کی رولنگ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ آئین کا دفاع اور قانون کی پاسداری بھی سپیکر کی ذمہ داری ہے۔ سپیکر آئینی ذمہ داری کی ادائیگی میں ذاتی منشا اور پسند کو ملحوظ خاطر نہ رکھیں، امید ہے کہ آپ اپنے عہدے کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے قانونی عمل کو آگے بڑھائیں گے۔سپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان نے اِس معاملے پر پہلی بار ذرائع ابلاغ کےذریعے گورنر پنجاب سے کہا ہے کہ وہ غیر آئینی احکامات جاری نہ کریں، آئین و قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہو گا۔ ابھی تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی ہے، شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں جا کر اس پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہو۔ دوبارہ گورنر پنجاب کو خط لکھ رہا ہوں۔ آرٹیکل 209 اے اور 235 کے تحت میرے پاس مکمل اختیارات ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا ہے کہ چودھری شجاعت حسین کا پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے کچھ لینا دینا نہیں اور گورنر پنجاب نے خیال احمدکاسترو کو وزارت دینے اور حسنین بہادر دریشک کے بارے میں جو کہا،وہ پی ٹی آئی کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہی نہیں سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا ہے کہ اسمبلی کا اجلا س چل رہا ہو یا نہ چل رہا ہو، گورنر،وزیراعلی کو ڈی نوٹیفائی نہیں کر سکتے۔ اگر وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کریں گے تو ہم ان کے خلاف صدرمملکت کو لکھیں گے۔ ہم فوری طور پر اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد کے معاملے کی وجہ سے ہمارا معاملہ تاخیر کا شکار ہواہے۔ ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ گورنر پنجاب کو اُن کے آئینی ماہرین کی ٹیم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی یعنی ان کے عہدے سے ہٹانے کے معاملے پر واضح کیا ہے کہ جس طرح وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہاگیا ہے اس کے ردعمل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی وزیر اعظم پاکستان کو قومی اسمبلی کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں یوں معاملہ گمبھیر ہوسکتا ہے پھر گورنر پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں کہیں بھی وزیراعلیٰ پنجاب نہیں ہیں کیونکہ گورنر پنجاب کے مراسلے کو سپیکر پنجاب اسمبلی نے غیر آئینی قرار دیا ہے لہٰذا معاملے میں کسی موقعے پر وزیراعلیٰ پنجاب نہیں آئے اِس لیے انہیں عدالت سے ریلیف مل سکتا ہے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب گورنر پنجاب نے سپیکر اسمبلی کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دینے کے بعد ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم ہوگیا جن میں پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو اُن کے عہدے سے ہٹانے جیسی افواہیں قابل ذکر ہیں، اسی دوران گورنر ہائوس لاہور کی سکیورٹی پنجاب رینجرز کے سپرد کرنے کی اطلاعات بھی سنی گئیں، پس غیر یقینی صورتحال سے نہ صرف سیاسی لوگ بلکہ امور سلطنت سے دلچسپی رکھنے والے عام پاکستانی بھی پریشان رہے، کیونکہ چند ماہ پہلے جب سردار عثمان بزدار کی جگہ چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیاگیا تب بھی حصول اقتدار کے لیے ایسی ہی صورتحال پیدا کردی گئی تھی جیسی ان دنوںدیکھنے میں آرہی ہے، لہٰذا ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والی یہ بات حقیقت کے قریب معلوم ہوتی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو گر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہاجاتا ہے تو صدر مملکت بھی تو وزیراعظم پاکستان کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ سکتے ہیں ، اِس طرح سیاسی بحران صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ مرکز میں بھی پیدا ہوگا اور ملک و قوم کے توجہ طلب امور سبھی مزید نظر انداز ہوجائیں گے جن پر پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یکسوئی نہیں دیکھی جارہی۔ بلاشبہ وفاق میں حکومت کی تبدیلی آئینی طریقے سے عمل میں لائی گئی مگر اِس کے لیے جو طریقہ استعمال کیاگیا وہ آج تک متنازع اور ہر سطح پر زیر بحث ہے، مرکز کے بعد پنجاب میں بھی اسی طریقے سے تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی مگر عدالت عظمیٰ نے معاملہ نمٹایا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ مل گئی، اب بھی جیسے سیاسی حالات پیدا ہوچکے ہیں یقیناً معاملہ عدالتی جنگ لڑنے کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ گورنر پنجاب اور سپیکر اسمبلی دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں اور ایک دوسرے کے موقف کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں، پس ان میں سے ایک شخصیت کا موقف آئین کے مطابق ہوگا اور عدالت سے رجوع کرنے کی صورت میں بھی بلاشبہ یہی پتا چلے گا، مگر توجہ طلب سوال یہ ہے کہ کیا غیر آئینی قدم اٹھاتے ہوئے ہمارے ہاتھ نہیں لرزتے، پھر آئین کا تقدس کہاں رہ جاتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں بڑا صرف اِسے ہی گردانا جائے گا جس کا فیصلہ ملک و قوم ، آئین اور حالات کی بہتری کے لیے ہوگا بصورت دیگر حالات کی مزید خرابی بھی کسی کے حصے میں آئے گی جو جانتے بوجھتے ہوئے حالات کی سنگینی کو نظر انداز کررہا ہوگا۔ جب ہم ماضی میں اٹھنے والے بحرانوں اور سقوط کی بات کرتے ہیں تو اِس دوران اُن کے ذمہ داران بھی زیر بحث آتے ہیں، کب کب مارشل لا کن کن سیاسی غلطیوں کی وجہ سے لگا، وطن عزیز کیوں دولخت ہوا، ذمہ داران کون تھے، سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کے خلاف عدم برداشت کے نتیجے میں کیسے اور کتنی بار جمہوریت کو قربان کیا اور حصول اقتدار کے لیے کس کس نے، کب کب کس دروازے پر دستک دی اور کن شرائط پر تھال سے اقتدار اٹھایا۔ ماضی کے واقعات، اِن کے اسباب اور نتائج آج بھی زندہ و جاوید ہیں کیونکہ تاریخ اور اِس کے کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، لہٰذا سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ حصول اقتدار کا کھیل اوردائو پیچ اب عامۃ الناس سے اوجھل نہیں رہے اِس لیے سنجیدگی کے ساتھ برداشت اوررواداری کی سیاست کی جائے، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں اور آئینی مدت پوری کرنے دیں، ایسے حالات مت پیدا کئے جائیں جن کے نتیجے میں سسٹم ڈی ریل ہونے کے خطرات منڈلائیں اور ملک و قوم کوناقابل تلافی نقصان پہنچے ماضی کی غلطیاں مدنظر رکھی جائیں، جس طرح وقت کے ساتھ حالات، ضروریات اور نظریات تبدیل ہوتے ہیں اسی طرح سیاست دانوں کو بھی ملک و قوم کو درپیش چیلنجز اور حالات کے مطابق اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیے کہ سیاست اور دائو پیچ اور اقتدار کی تبدیلی سے ہی ملک و قوم کے حالات قطعی نہیں بدلتے ، بلکہ اِس کے لیے بڑی اور انقلابی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے، بلاشبہ موجودہ سیاسی بحران آنے والے دنوں میں ختم ہوجائے گا لیکن ماضی کو دیکھیں تو ایک کے بعد دوسرا بحران تیارہوتا ہے۔ اگر جلد ازجلد عام انتخابات کا انعقاد سیاسی بحران کو ختم کرسکتا ہے تو اِس پر ضرور سوچ و بچار ہونی چاہیے، کیونکہ عام انتخابات کو ہی سیاسی بحران کے خاتمہ کا حل بتایا جارہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button