Editorial

پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے پر تنازع

 

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کی طرف سے 21دسمبر(گذشتہ روز)کو طلب کردہ اجلاس کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اجلاس چل رہا ہو تو نیا اجلاس نہیں بلایا جاسکتا۔ گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مراسلہ تحریر کیا لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی نے اِس مراسلے کو غیر آئینی قرار دے دیا یہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر پنجاب سے متعلق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھی خط لکھنے پر سوچ و بچارشروع کردیا ہے ۔ سپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان نے حزب اختلاف کی طرف سے جمع کرائی گئی وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کل بروز جمعۃ المبارک اجلاس طلب کرلیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے بیک وقت دو سیاسی آپشن استعمال کیے ، انہوں نے گورنر پنجاب کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مراسلہ بھجوایا تو دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرادی مگر سپیکر اسمبلی نے گورنر پنجاب کے مراسلے کو غیر آئینی قرار دے دیا اورتحریک عدم اعتماد کی حزب اختلاف کی تحریک پر کارروائی کل کرنے کا اعلان کیا ۔ گذشتہ روز پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں معمول کی کارروائی ہوئی اور گورنر پنجاب کے مراسلے کی روشنی میں کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی ، اسمبلی سٹاف نے معمول کے مطابق کام نمٹایا ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا نے سپیکر پنجاب اسمبلی کے فیصلے پر کہا تھاکہ چودھری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو وزیراعلیٰ ہائوس کوسربمہرکر دیں گے اور گورنر پنجاب نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا اعلان کر سکتے ہیں، یوں گذشتہ روز نہ تو گورنر پنجاب کے مراسلے کی روشنی میں اسمبلی کا اجلاس طلب ہوا اور نہ ہی وفاقی وزیر داخلہ کے کہنے پر وزیراعلیٰ ہائوس کو سربمہر کیاگیا بلکہ وزیراعلیٰ اور ان کے سیکرٹریٹ کا عملہ معمول کے کام نمٹاتے رہے، لہٰذا سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کی اِس وقت نظر پنجاب کی سیاست بالخصوص پنجاب اسمبلی کی کل بروز جمعۃ المبارک ہونے والی کارروائی پر مرکوز ہے اور کچھ گھنٹے تک پہلے جیسی قیاس آرائیاں اور پی ڈی ایم کی طرف سے پیش قدمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نظر آرہے تھے وہ بھی پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنمائوں کی وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ملاقات کے بعد اب یکسر بدل گئے ہیں، اِس ملاقات میں دونوں پارٹیوں نے عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو حتمی شکل دی ہےاور صرف چودھری مونس الٰہی ہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی اب اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے حق میں بیانات دے کر قبل ازیں ہونے والے سیاسی رابطوں ،پیشکشوں اور تاثرات کو زائل کرچکے ہیں، لہٰذا اب جو بھی ہوگا کل پنجاب اسمبلی میں ہوگا اور پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف یعنی پی ڈی ایم نے اراکین کی تعداد کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب پر عدم اعتماد ظاہر کرنا ہے، مگر گذشتہ روز چودھری پرویز الٰہی کے اراکین صوبائی اسمبلی نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اُن پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور انہیں تمام فیصلے کرنے کا اختیار دیا ہے، اب وہ دعوے بھی ہوا ہوگئے ہیں کہ مسلم لیگ قاف کے چھ اراکین اسمبلی چودھری شجاعت حسین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے مرکزی حکومت اتحادیوں کے ساتھ ہر ممکن کوشش کررہی ہے جبکہ عمران خان خیبر پختونخوا اورپنجاب اسمبلیاں تحلیل کرکے مرکزی حکومت کو عام انتخابات کی جانب لیجانے پر مجبور کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ جب اسمبلیاں ہی تحلیل ہوجائیں گی تو اِن کے لیے عام انتخابات ہوں گے جو پانچ سال کے لیے ہوں گے اور بظاہر عمران خان اِس کافائدہ اٹھائیں گے اور اسی مقصد کے لیے وہ وفاقی حکومت سے باربار عام انتخابات کے جلد انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور ہر رابطے اور پیشکش کا واحد جواب عام انتخابات کے قبل ازوقت انعقاد کی تاریخ ہی دے رہے ہیں۔ وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے لیے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے رجوع کرچکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب عمران خان اور پی ڈی ایم کے مابین سیاسی مقابلے کا آخری رائونڈ چل رہا ہے، پس رواں سال کے آغاز میں مرکز میں جیسی صورتحال تھی بلاشبہ ویسی ہی صورتحال ان دنوں پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ، دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو چند ماہ کی خاموشی کے بعد اب پھر پنجاب سیاسی دائو پیچ کی وجہ سے سیاسی میدان بنا ہوا ہے اور دونوں اطراف سے صرف سیاست ہی ہورہی ہے۔ ہم پہلے اپنی رائے کا اظہارکرچکے ہیں کہ اِس وقت شاید واحد مقصد اسمبلیوں کی مدت پوری کرنا نہیں بلکہ عوام کو انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ ریلیف دے کر عام انتخابات کی مہم کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں سازگار کرنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، کیونکہ دہائیوں پرانے بحران ہفتوں ، مہینوں یا سالوںمیں حل ہونے والے نہیں اس کے لیے جمہوری حکومتوں کا تسلسل اور کاروبار کے لیے موزوں حالات ضروری ہیں جو کہ افسوس، کبھی میسر ہی نہیں رہے۔ اب پھر حصول اقتدار کی جنگ پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے، دونوں جانب سے ہر آئینی حربہ استعمال کیا جارہا ہے مگر سیاسی کھیل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا کیونکہ جمہوری ادوار ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں، جمہوری طاقتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو برداشت کرتی ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے وجود کو، مگر جب مفادات یکساں ہوں تو ماضی کی تمام تلخیاں نظر اندازکردی جاتی ہیں اور سبھی ایک ہی دھن پر گا تے نظر آتے ہیں، ایسا اتحاد اور اتفاق جمہوری ادوار میں ملک و قوم کے مفادات کے لیے ہوتا تو آج ملک و قوم کے حالات یکسر مختلف ہوتے اور سیاسی قیادت کو بھی عوام کی طرف سے تنقید کا ہمہ وقت سامنا نہ رہتا۔ حالیہ دنوں کی ہی مثال لے لیجئے ایک طرف مرکز اور پنجاب ایک دوسرے کے خلاف سیاسی دائو پیچ آزماتے ہوئے آمنے سامنے کھڑے ہیں تو دوسری طرف وہ دیرینہ مسائل زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہیں جن کو حل کرنے کا سبھی اعادہ کرتے آئے ہیں اور جن کا براہ راست تعلق ملک اور قوم سے ہے۔

جواب دیں

Back to top button