وفاقی حکومت کا اسلامی بینکنگ کا اعلان

وفاقی حکومت نے ملک میں اسلامی بینکنگ کانظام لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سود سے متعلق شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی اپیلیں واپس لے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کوشش ہے جتنا جلدی ہوسکے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کریں،معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی، گورنر اسٹیٹ بینک سے خصوصی مشاورت کی گئی اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لیں گے۔پاکستان میں سود سے پاک نظام کو تیزی سے آگے لے کر چلیں گے ۔ 75 سال سے جاری بینکاری کے نظام کو یک دم تبدیل نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا اقدام تصور ہوگا۔ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد قوم کو سودی نظام کے خاتمے کی خبر رواں سال اٹھائیس اپریل کو ملی جب وفاقی شرعی عدالت نےسودی نظام معیشت کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دیا ہے اور حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی۔ تین رکنی بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے 12اپریل کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایاجو تین سو بیس صفحات پر مشتمل تھا۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی جانب سے قریباً دو دہائی قبل ریمانڈ کرکے بھجوایا گیا تھا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کا موقف مسترد کردیا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ یہ قابل عمل نظام نہیں ہے، تفصیلی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ملک میں ربا سے پاک بینکاری بھی ہورہی ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا قانون بھی سود سے پاک بینکاری کی اجازت دیتا ہے لہٰذا ربا کو ختم کرنا مذہبی اور آئینی فریضہ ہے اور اسلامی نظام معیشت قابل عمل طریقہ کار ہے۔ اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو گی۔یہی نہیں عدالت نے حکومت کو اندرون و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگابلکہ سی پیک کے لیے چین بھی اسلامی بنکاری نظام کا خواہاں ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کے اِس اعلان کا تمام مذہبی رہنمائوں نے زبردست خیر مقدم کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جتنا جلد ممکن ہو وفاقی حکومت اِس معاملے میں پیش رفت کرے کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سے پہلے بھی کئی ملکی بینک اسلامک بینکنگ کی سہولیات فراہم کررہے ہیں اور بینک صارفین کی بہت بڑی تعداد سود سے پاک سرمایہ کاری کو ترجیح دیتی ہے اسی لیے قومی بینک بھی سود سے پاک خدمات فراہم کررہے ہیں۔ بلاشبہ اسلامی نظام معیشت ربا کی ممانعت کرتا ہے اور ربا کی روک تھام ہی اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں ربا کی ممانعت کی گئی ہے لیکن پھر بھی ملک کا نظام سترسال سے ربا کے تحت چل رہا ہے۔وفاقی شرعی عدالت کے مطابق بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے اور ربا کی موجودہ تمام صورتیں ممنوع ہیں اور سٹیٹ بنک کے سٹریٹجک پلان کے مطابق تیس فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے۔ عدالت نے سود سے پاک بینکاری نظام کے لیے حکومت کو پانچ سال کی مہلت دی تھی لیکن اب وزیرخزانہ اسحق ڈار کے اعلان سے واضح ہوگیا ہے کہ حکومت سود سے بینکاری کے لیے کوششیں کررہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے پر تیزی سے ہوتی پیش رفت نظر بھی آنی چاہیے۔ قرآن و حدیث نے سودی نظام کی جتنی سختی سے ممانعت فرمائی ہے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِسی میں ہماری بہتری ہےکہ ہم اِس نظام سے جتنا جلد ہوسکے جان چھڑائیں۔ سودی نظام کے خاتمے سے یقیناً سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو سود کو حرام سمجھتے ہوئے سرمایہ کاری سے گریزاں تھے۔ سود کو برا نہ سمجھنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے دلدادہ افراد کو شاید غلط فہمی ہے کہ سود کے بغیر معیشت کیسے کام کرے گی حالانکہ کئی غیر مسلم ممالک سود سے پاک سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں یعنی ان ملکو ں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود سودی نظام معیشت کو اختیار نہیں کیا اِس کے برعکس ہم روز اول سے ہی سودی نظام معیشت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جب عام لوگوں کو بھاری سود کی بجائے آسان شرائط کے ساتھ قرض ملیں گے تو بلاشبہ مالیاتی اداروں کو بھی فائدہ ہوگا اور چھوٹے صنعتکاروں کو بھی، جن کی لاگت کم ہوگی اوراِس کے نتیجے میں اشیا کی قیمتیں بھی کم ہونی چاہئیں اس کے برعکس ملک میں اِس وقت شرح سود پندرہ فیصد ہے اور گذشتہ کئی ماہ سے اِسی شرح سود کو برقرار رکھاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ بینک بھی اسی شرح سود کے مطابق سرمایہ کاروں کو قرض دیتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہےکیونکہ انہوں نے پندرہ فیصد یا اِس سے زائد شرح سود بہرصورت فراہم کرنی ہے، غرضیکہ ہر شعبے کو اسلامی طریقہ بینکنگ سے ریلیف ملے گا کیونکہ وفاقی شرعی عدالت سود سے متعلق واضح طور پر رہنمائی کرچکی ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشی ماہرین اور جید علما کرام سے مشاورت کے ساتھ سود کے بغیر ایسا نظام معیشت تشکیل دے جو سبھی کے لیے قابل قبول ہو اور اِس میں کہیں بھی سود کا شائبہ نہ ہو۔ یقیناً مالیاتی اداروں اور خود کو بھی سود کو مسترد کرکے دوسرے ذرائع سرمایہ کاری اور اپنی آمدن بڑھانے کے لیے تلاش کرنا پڑیں گے اور ہمیں امید ہے کہ پانچ سال کے طویل عرصے کے دوران ہم سود کے متبادل اسلامی نظام پر منتقل ہوجائیں گے اور عوام کو سود سے نجات حاصل ہوگی۔







