سوات میں امن و امان کی صورتحال

وفاقی حکومت نے سوات واقعہ کے بعد تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کے آپشن پر غور شروع کردیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان کی زیر صدارت اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں سوات میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تفصیلی جائزہ لیاگیا اور کمیٹی نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف سوات کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا کا فیصلہ کیا ۔ قریباً دو روز قبل ہی سوات کے علاقے مینگورہ میں پورا دن لوگوں کا جمِ غفیر موجود رہا ہے اور لوگوں نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف احتجاج کیا۔چند روز قبل سوات کے علاقہ چارباغ میں ایک سکول وین پر حملہ ہوا جس میں وین کا ڈرائیور ہلاک اور دو بچے زخمی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے مینگورہ بائی پاس پر دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل سوات امن لشکر کے سابق سربراہ اور اپنے علاقے کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ادریس خان ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔قریباً تین ماہ قبل ہی قومی سلامتی کمیٹی کے اِن کیمرا اجلاس میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے معاملے پر اسٹیئرنگ کمیٹی بنانے پر اتفاق کیاگیا تھا اور پارلیمانی فورم نے مذاکراتی کمیٹی کوٹی ٹی پی سے بات چیت جاری رکھنے کا مینڈیٹ بھی دیا تھا۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی زیر صدارت اِس اہم اجلاس میں عسکری قیادت نے بریفنگ میں اُس وقت تک بات چیت کے ہونے والے ادوار سے متعلق بتایا تھاکہ افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری کے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے متعلق واضح کرنا ضروری ہے کہ کمیٹی حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل ہے اور آئین پاکستان کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کر رہی ہے،اوریہ امرواضح کیاگیا تھا کہ حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ راہنمائی اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ اسی پارلیمانی فورم نے مذاکراتی کمیٹی کو کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات جاری رکھنے کا مینڈیٹ دیتے ہوئے طے کیا تھا کہ ایک پارلیمانی اوورسائٹ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں صرف پارلیمانی ممبران شامل ہوں گے اورمذاکراتی عمل کی نگرانی کریں گے۔اِس اجلاس کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اجلاس میں امید ظاہر کی گئی کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پچھلی حکومت میں بھی مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے لیکن
مثبت نتیجہ و اعلان قوم کے سامنے نہ آسکا ۔قومی سلامتی کمیٹی کے اِن کیمرا اجلاس میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے معاملے پر اسٹیئرنگ کمیٹی بنانے پر اتفاق اور کمیٹی کوٹی ٹی پی سے بات چیت جاری رکھنے کا مینڈیٹ دینے کے بعد توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بھی مثبت پیش رفت ہوگی اور وہ ریاست کی رٹ تسلیم کرتے ہوئے آئین و قانون کے تابع آجائیں گے لیکن سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوںمیں ہونے والی حالیہ کارروائیاں اُس توقع کے برعکس تشویش کاباعث بن رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کےذریعے ایسی اطلاعات بھی منظر عام پر موجود تھیں کہ ٹی ٹی پی اور مذاکراتی کمیٹی کے مابین نوے فیصد سے زیادہ معاملات طے پاچکے تھے اور باقی معاملات پر مذاکرات کا عمل جاری تھا اور مذاکراتی کمیٹی نے بھی محسوس کیا تھاکہ ٹی ٹی پی والے بھی نہ صرف امن بلکہ وہ باعزت واپسی بھی چاہتے تھے اور ان کے مطالبات میں ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ قابل ذکر شرائط تھیں ۔ قبائلی علاقوں میں اب پرانا ایف سی آر قانون نافذ نہیں رہا یوں اب قبائلی علاقوں سمیت کوئی بھی علاقہ صوبائی اور وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ و آئین سے باہر نہیں جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل247کے مطابق ایف سی آر کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات پر کسی بھی صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی دائرہ اختیار متعین نہیںتھا اور یہ علاقہ جات براہ راست صدارتی احکامات کے پابند تھے ۔ چونکہ ایف سی آر کے تحت وفاقی یا صوبائی حکومت یہاں مداخلت نہیں کرسکتی تھی اور نہ ہی یہاں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت تھی اس لیے یہ علاقے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہے اورمقامی لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا گیااور جو کچھ بھی وہاں ہوتا رہا آج اپنی اصل میں ہمارے سامنے آچکا ہے مگر فاٹا کے عوام کی سوچ یہی رہی تھی کہ شاید صوبہ اور مرکز ان کو محکموم رکھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں تھی اور خصوصاً اب تو وہاں ترقی اور روزگار کی صورت حال یکسر مختلف ہوچکی ہے۔ ٹی ٹی پی نے پہلے جو قدم اٹھایا وہ کسی بھی ریاست کے لیے قابل قبول نہیں تھا ملک بھر میں جو مسلح کارروائیاں کرکے بے گناہ پاکستانیوںکو موت کے گھاٹ اُتارا گیا اور بے گناہوں کے لاشے چوک و چوراہوں پر بے گوروکفن دکھائے گئےلیکن پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں نے صورتحال اور اس کے پس پردہ ملک دشمن عناصر کے تمام تر عزائم خاک میں ملائے اور اسی ہزار شہدا کی قربانیوں سے دشمن کو شکست فاش دیکر پوری دنیا پر عیاں کردیا کہ پاک فوج اِس ارض پاک کے چپہ چپہ کی حفاظت کرنے کی بخوبی اہلیت رکھتی ہے خواہ اس کا سامنا کسی بھی بڑی طاقت سے کیوں نہ ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ سوات میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور ان کے محرکات پر جلد ازجلد
قابو پالیاجائے گا اور اس ضمن میں مرکز اور صوبے میں سیاسی مخاصمت آڑے نہیں آئے گی،اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول ایبٹ آباد میںخطاب کے دوران بڑا واضح کہا ہے کہ ملک کی حفاظت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ کسی ملک، گروپ یا تنظیم کو پاکستان کو سیاسی یا معاشی غیرمستحکم کرنے نہیں دیا جائے گا۔ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے فوج نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مسلح افواج شہریوں کے تعاون سے کسی ملک، گروپ یا قوت کو پاکستان کو سیاسی یا معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔







