معاشی ترقی پر سٹیٹ بینک کی رپورٹ

سٹیٹ بینک نے مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے شرح سود 15 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ سٹیٹ بینک کی زری کمیٹی کے مطابق گزشتہ اجلاس کے بعد معاشی سرگرمی میں سست روی آتی رہی اور عمومی مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے میں کمی آئی۔ زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ زری پالیسی اس مرحلے پر تبدیل نہ کی جائے۔ سیلاب سے قبل سٹیٹ بینک کی جانب سے امکان ظاہر کیاگیا تھا کہ جی ڈی پی کی نمو تین سے چار فیصد ہوسکتی ہے لیکن سیلاب کے بعد اب خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ جی ڈی پی کی نمو گر کر دو فیصد ہوسکتی ہے اور اس دوران مالی سال 2023 میں بلند غذائی قیمتیں اوسط عمومی مہنگائی کو سیلاب سے قبل کی پیش گوئی 18سے 20 فیصد سے کسی حد تک بڑھا سکتی ہیں۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے سودکی شرح کو 15فیصدپر برقراررکھا ہواہے اور اِس کے کئی مقاصد میں سے ایک غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہے بھی کیونکہ معاشی مسائل کی وجہ سے ہمارے یہاں مسلسل شرح سود کو بڑھایاجارہا ہے جواب پندرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے اس کے برعکس ہمسایہ ممالک میں شرح سود قدرے کم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار کم شرح سود پر رقم لیکر زیادہ شرح سود والے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اِس طرح انہیں کہیں زیادہ منافع ملتا ہے زیادہ شرح سود کا جہاں یہ فائدہ ہے وہیں اِس کا نقصان بھی ہے کہ مقامی سرمایہ کاروں خصوصاً چھوٹے سرمایہ کاروں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور وہ بلند ترین شرح سود کی وجہ سے مالیاتی اداروں سے رجوع نہیں کرتے کیونکہ انہیں بلند شرح سود پر رقم دی جاتی ہے جو کاروبار کے لیے لینا یقیناً مشکل فیصلہ ہوتا ہے مگر ہم جس معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ کئی دہائیوںسے سامنا کررہے ہیں ہماری معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونا اور ہمہ وقت کی سیاسی بے یقینی کی وجہ سے یہ معاشی بحران ختم ہونے کی بجائے بڑھتا جارہا ہے ، موجودہ معاشی صورت حال دیکھ کر بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کس حد تک معاشی بحران اورقرضوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اگر ہم معاشی پالیسیوں کو ماہرین کے سپرد کرتے اور ہر حکومت معاشی پالیسی کا تسلسل جاری رکھتی تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے مگر ہر دور میں معاشی دعوئوں کے برعکس غیر منظم سرمایہ کاری کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ملکی معیشت انتہائی سنگین مسائل سے دوچار ہے اور ہمارا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ملکی معیشت کو صحیح معنوں میں سنبھالا دے سکے اور شاید خطے میں ہم واحد ہیں جہاں صنعتیں بے حد مسائل کا شکار ہیں کیونکہ ہمارے ہاں معاشی پالیسیوں کا تسلسل رہا ہے اور نہ ہی اِس تصور کو کبھی تقویت ملی ہے، بے شمار ٹیکسز اور پھر مصنوعات کے ہر
مرحلے پر ٹیکس کے بعد ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں کون خریدے گا؟ توانائی کے مہنگے ترین ذرائع کے ساتھ ہم بین الاقوامی منڈی میں معاصر ممالک کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں صنعتوں کے فروغ کے ذریعے ہی معاشی انقلاب لائے گئے ہیں،اگر آج ہمسایہ ممالک معاشی بحرانوں سے دور ہیں تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ترقی کا راز پالیا ہے، مگر ہم 75سالوں سے کبھی یکسوئی کے ساتھ چل ہی نہیں سکے۔ چند روز قبل وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ملک کے برآمدی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت قریباً بیس روپے فی یونٹ کرنے کا اعلان کیا تو جان میں جان آئی وگرنہ تیاری تو تھی قریباً ساٹھ روپے کا یونٹ برآمدی شعبے کو بیچنے کی۔ سوال یہ ہے کہ جب ہماری برآمدات ہی نہیں ہوں گی تو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں کیسے اضافہ ہوگا؟ کیا ہم بیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے محتاج رہ کر ہی نظام حکومت چلاتے رہیں گے یا پھر ہر بار قدرتی آفت آنے کے بعد امداد کے لیے ہاتھ پھیلائیں گے ۔ بھارت نے آئی ایم ایف پروگرام حاصل کیا اور پھر انتہائی سمجھداری سے اِس سے جان بھی چھڑالی مگر ہمیں نظام حکومت چلانے کے لیے پہلے ہی دن آئی ایم ایف کے دروازے پردستک دینا پڑتی ہے۔ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں نہ تو میثاق جمہوریت ہوتا ہے اور نہ ہی میثاق معیشت، دوسری طرف معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں اور وہ موجودہ حالات میں کسی بھی بیانیہ پر یقین کرنے کو تیار نہیں، دو وقت کی روٹی عام پاکستانی کا بنیادی مسئلہ بن چکی ہے، جب سے اسحق ڈار نے خزانے کا قلم دان سنبھالا ہے بلاشبہ ڈالر کی قیمت میں کمی واقع ہورہی ہے لیکن عام آدمی کی زندگی میں اِس کے نتیجے میں کیوں فرق نظر نہیں آرہا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم بنیادی خرابیوں کو اُن کی جڑوں سے ختم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک خرابیاں دور نہیں ہوں گی بلکہ مزید گہری جڑیں پکڑتی جائیں گی، حالیہ سیلاب کے بعد مہنگائی بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے جس طرح شرح سود، اِس لیے حکمرانوں اور معاشی ٹیم کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک کی معاشی حالت بہتر ہو بلکہ انڈسٹریز کو بھی فائدہ پہنچے اور عام آدمی کی زندگی بھی قدرے آسان ہو، وگرنہ جس طرح وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی کشمکش جاری ہے، اِس کے نتیجے میں عوام بدحال اور معیشت مزید کمزور ہوگی، اور بلاشبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات کی وجہ سے صرف عوام پس رہے ہیں۔ارباب اختیار کے لیے موجودہ ملکی حالات لمحہ بہ لمحہ فکر انگیز ہونے چاہئیں ، جب تک ہم حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں کریں گے، معیشت، مہنگائی اور عدم استحکام سمیت کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں ہونے والی۔







