Editorial

بعثت نبویﷺ کے مقاصد اور تقاضے

 

نبی آخرالزماں، حبیب ِکبریا، امام الانبیاء، سید المرسلین،رحمۃ للعالمین،شفیع المذنبین حضور نبی کریمﷺ کی ولادتِ باسعادت کی وجہ سے بارہ ربیع الائول اُمت مسلمہ کے لیے تمام عیدین سے زیادہ خوشیوں والا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں آج ایک بارپھر سرور کائنات، محسن انسانیت، آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺکا یوم ولادتِ باسعادت منانے کا موقع دیاہے اور سبھی مسلمان نبی پاک ﷺ سے محبت و عقیدت کا اظہارکررہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت اور جلوہ گری کو محققین اللہ تعالیٰ کی نعمت کبریٰ قراردیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں سے بڑی نعمت آپ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت اور جلوہ گری ہے۔ ظہورقُدسی ﷺسے قبل سرزمین عرب پر موجود نوعِ انسانی ہر قسم کی برائی کا شکارہو کر حیوانوں سے بھی بدتر تھی۔ رہزنی اور قتل و غارت کو آبائی پیشوں کی حیثیت حاصل تھی۔ ہر سو ظلم و ستم کا بازار گرم اور شیطنت عروج پر تھی ۔ انسانیت کی تذلیل اور بربریت کے واقعات کو بہادری گردانتے ہوئے فخر کیا جاتا لیکن ظہورقُدسی ﷺ کے بعد عرب کے بدوّ جو جاہل اور گنوارتھے، وہی عالم و فاضل کہلائے۔ جو راہزن، لٹیرے، چور اور ڈاکو تھے ، وہی غیروں بلکہ دشمنوں کی عزت اور جان و مال کے محافظ بن گئے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والوں نے شفیق والدین بننے کی مثالیں قائم کیں اور زمین و آسمان نے ایسے معجزے دیکھے جو پہلے روئے زمین پر کبھی رونما نہ ہوئے تھے۔ محسن کائنات محمد مصطفیﷺ نے سرزمین عرب ہی نہیں بلکہ زمین و آسمان میں موجود ہر شے کی کایا پلٹ دی اور ایسا انقلاب برپا کیاجس نے انسان کو عزت و احترام اور اہمیت دی، اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا اور دوسرے انسانوں کو فائدہ دینے والا بنایا۔روئے زمین پر ایسا انقلاب نہ پہلے دیکھا گیا اور نہ ہی روز قیامت تک دیکھا جاسکتا ہے جس میں خون کا ایک قطرہ نہ بہا لیکن سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ محسن انسانیت، نبی کریم ﷺ کا ظہور قُدسی صرف اُمت مسلمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب اور تمام جہانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت کبریٰ ہے کیونکہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں جس میں نبی کریمﷺنے ہمارے لیے ہدایات اور رہنمائی نہ فرمائی ہو، پس تنہائی ہو یا مجلس، خلوت ہو یا جلوت، صلح ہو یا جنگ، ناکامی ہو یا کامیابی، شادی ہو یا غمی ہر جگہ اسوۃ محمد ﷺ اعلیٰ اخلاق کا مظہر نظر آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب محمد مصطفیﷺ میں وہ تمام صفات پیدا کی تھیں جو نہ تو آپ ﷺ سے پہلے کسی میں تھیں اور ہمارا ایمان ہے کہ قیامت تک کسی میں نہ ہوں گی، پس اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین ﷺ پر یہ زریں سلسلہ مکمل و ختم فرمادیا، اسی طرح نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ بھی نبی کریمﷺ پر ختم فرمادیا ہے ۔بطور مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت تک
آپ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور نہ ہی نزول ِ کتب و صحف ہوگا اور آنحضرتﷺپر اللہ تعالیٰ نے دین مکمل فرمادیا ہے اور اب ہمارے پاس دنیا و آخرت میں کامیابیاں سمیٹنے کے لیے قرآن و سنت ہیں اور ہم نے زندگی کے ہر پہلو اور ہرموڑ پر انہی سے رہنمائی لینی ہے، اگر ہم کسی بھی موقع پر بھٹکیں گے تو آگے صرف تاریک اندھیرا اور بالآخر جہنم کی آگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب محمد مصطفی ﷺ نے سرزمین عرب غرضیکہ زمین و آسمان اور اِن کے درمیان موجود ہر شے کی اصل پہچان دی۔ نیکی اور بدی کے درمیان واضح لکیر کھینچی۔ انسان اور حیوان میں تمیز کو واضح کیا اور جنت و دوزخ کی طرف جانے والے راستوں کی نشاندہی فرمائی۔ پس آج ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس راستے پر گامزن ہیں وہ راستہ جو نیکی اور بھلائی کا راستہ اور اللہ کے پیارے نبیﷺ کا راستہ ہے یا پھر وہ راستہ جو برائی کا راستہ ہے اور اِس کی منزل دوزخ کی آگ ہے۔ ہم سیرت نبوی ﷺ پر کتنا عمل کررہے ہیں اور ہم کس نظام مملکت کے تحت چل رہے ہیں، وہ نظام جو آپ نبی کریم ﷺ نے تشکیل فرمایا ، جس میں کوئی بھوکا نہ سوتا تھا، امارت اور غربت میں واضح فرق نہ تھااور خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق ؓ، جنہوں نے ریاست میں بسنے والوں کے مسائل کی ذمہ داری اپنے اوپر لی یا پھر ایسا نظام ہے جس میں امیر اور غریب کے درمیان واضح تفریق موجود ہے۔ حاکم وقت ریاست میں بسنے والوں کے مسائل تو گردانتا ہے لیکن عملاً لاتعلق ہے۔ لوگ برائی کو برائی تو سمجھتے ہیں لیکن ارتکاب میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ امیر و غریب کے لیے انصاف کی فراہمی کے معیار یکساں نہ ہیں۔ دین کی ترویج کی بجائے غیر مسلموں کی نقالی عام ہے۔ اجتماعی مفاد کی بجائے انفرادی مفاد عام ہے۔ کہیں ہم نے اسلامی خصوصیات چھوڑ کر غیر دینی معاشرت تو اختیار نہیں کرلی؟ ہمارے قول و فعل سے ہماری شناخت ہمیں کیا ظاہر کررہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ ہم حق تعالیٰ کے غضب کا شکارہوچکے ہوں مگر ہمیں خبر بھی نہ ہو۔ پس یہی وقت ہے سوچنے اور سمجھنے کا، خصوصاً ہمارے حکمرانوں کے لیے کہ اُن کی زندگی عین اُسی طریقے سے بسر ہورہی ہے جیسی خلفائے راشدین نے گذاری؟ پس ایک بار پھر ہم کہنا چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی ترویج و تقسیم کا کام بالآخر سیدالمرسلین خاتم النّبیین ﷺ پر مکمل و ختم فرمادیااور اسی طرح نزولِ کتب وصحف کا سلسلہ و طریقہ بھی نبی کریمﷺ پر ختم فرمادیاگیا ہے، اِس لیے اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور پہچان مقصود ہو تو وہ آخری نبی محمد مصطفی ﷺ سے رجوع کرے کیونکہ یہی ہمارے ایمان کی شرط و تقاضا ہے کہ آپ ﷺ پر دین اسلام مکمل فرمادیاگیا ہے پس ہمیں اسی کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور اسی کے مطابق معاشرت کو ڈھالنا ہے اور اگر ہم محسوس کریں کہ ہم احکامات خداوندی سے بھٹک رہے ہیں تو ہمیں قرآن و حدیث اور سیرت نبویﷺ سے رجوع کرنا چاہیے ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے پیارے محبوبﷺ کے اُمتی کے طور پر پیدا کیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button