ColumnMazhar Ch

خدیجہ کو انصاف ملنا چاہیے! .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

یوں تو آئے روز مملکت خداداد پاکستان میں خواتین پر ظلم و ستم اور تشدد و زیادتی کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن چند روزقبل فیصل آباد کے معروف تاجر نے میڈیکل فائنل ائیر کی طالبہ خدیجہ پر بہیمانہ ظلم وتشدد کی ایک شرمناک مثال قائم کی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزم شیخ دانش نے شادی سے انکار پراپنی بیٹی کی دوست خدیجہ کو اس کے بھائی سمیت مسلح افراد کے ہمراہ گھر سے اغوا کیا اور اپنے گھر لے جا کر نہایت ہی بہیمانہ طریقے قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا۔شیخ دانش سمیت دیگر ملزمان نے خدیجہ کو عبرت کا نشانہ بنانے کی غرض سے نہ صرف اس کے سر کے بال کاٹے بلکہ اس کی بھنویں تک مونڈ ڈالیں۔مرکزی ملزم شیخ دانش نے انسانیت سے گری ہوئی ایک اور غلیظ حرکت یہ کی کہ خدیجہ کو چپلیں اور جوتے چاٹتے ہوئے معافی مانگنے پر مجبور بھی کیا اور اس تمام مکروہ افعال کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔اس کے علاوہ یہ بھی رپورٹ ہوا ہے کہ مرکزی ملزم شیخ دانش نے خدیجہ کے ساتھ جنسی درندگی کی کوشش بھی کی اور اس کے ساتھیوں نے اس دوران ویڈیوز بھی بنائیں۔ویمن پولیس اسٹیشن فیصل آباد میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں خدیجہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ شیخ دانش کی بیٹی انا شیخ کے ساتھ سکول کے زمانے سے اس کی دوستی تھی جس کی وجہ سے اس کا ان کے گھر آنا جانا تھا اور آپس میں گھریلو تعلق داری اور اعتماد کا تعلق تھا۔ خدیجہ کے مطابق اس تعلق کی وجہ سے شیخ دانش نے اس
میں دلچسپی لیتے ہوئے قربتیں بڑھانے کی کوشش کی اور اس کے گھر شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ شادی سے انکار پر شیخ دانش نے اپنی بیٹی کے ذریعے خدیجہ کو فون پر شادی کے لیے مجبور کرنا شروع کر دیااور انکار کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس کے باعث اس نے خوف زدہ ہو کر باپ بیٹی کے ساتھ روابط منقطع کر دئیے۔ شادی سے دو ٹوک انکار اور تمام روابط ختم کرنے پر ملزم شیخ دانش اپنی بیٹی اور مسلح افراد کے ہمراہ خدیجہ کے گھر دھاوا بول کر خدیجہ اور اس کے بھائی کو سیاہ ویگو میں اغوا کر کے لے جاتے ہیں۔
اگرچہ خاتون ملزمہ سمیت خدیجہ پر تشدد کرنے والے قریباًسارے ملزمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مرکزی ملزم شیخ دانش کی ایک کیس میں ضمانت منظور ہو گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ملزم شیخ دانش پر دو مقدمات درج تھے، ایک خدیجہ تشدد کیس جبکہ دوسرا ملزم کے گھر سے شراب برآمدگی کیس ۔ملزم شیخ دانش کی ضمانت شراب برآمدگی کیس میں ہوئی ہے۔دوران تفتیش یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ طالبہ خدیجہ پر تشدد کرنے والی نامزد ملزمہ ماہم ملزم شیخ دانش کی منکوحہ اور بیوی ہے۔پولیس نے متاثرہ طالبہ اور ملزمان کے موبائل فونز کا فرانزک معائنہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مزید انکشافات کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔دوسری طرف شیخ دانش کی دولت اور سیاسی اثر ورسوخ کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اسے قرار واقعی سزا دلوانا بہت مشکل ہے۔ مقدمے کے مرکزی ملزم شیخ دانش کی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کے دعوے کیے جا رہے ہیں جو کافی حد تک حقیقت پر مبنی دکھائی دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک طرف ملزم شیخ دانش کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ کا فرنٹ مین بتایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کی پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب کے ساتھ گہری وابستگی بھی سامنے آئی ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں ملزم شیخ دانش متذکرہ شخصیات کے ساتھ دیکھے جارہے ہیں۔عجیب اتفاق ہے کہ ملزم سے قریبی تعلق رکھنے والے رہنمائوںکی جماعتیں مرکز اور پنجاب میں برسر اقتدار ہیں۔اس وقت دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما اور
سپورٹرز ملزم شیخ دانش سے اپنی سیاسی وابستگی کو جھٹلاتے ہوئے اس کا تعلق مخالف جماعت کے ساتھ جوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔غیر جانب دار حلقوں کے مطابق ملزم شیخ دانش کی مختلف وقتوں میں دونوں سیاسی جماعتوں اور ان کے اہم رہنمائوں کے ساتھ سیاسی وابستگی اور تعلقات رہے ہیں۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم شیخ دانش دونوں پارٹیوں سے منسلک رہے ہیں بلکہ ایک پارٹی سے اب بھی منسلک ہیں۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ خدیجہ تشدد کیس میں سوشل میڈیا صارفین اور مین سٹریم میڈیا کے دبائو کی وجہ سے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزم شیخ دانش کی بیٹی انا علی کو بھی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن ملزمان کے سیاسی اثر ورسوخ اور تعلقات کودیکھتے ہوئے بہیمانہ تشدد اور زیادتی کا شکار خدیجہ کو انصاف ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔اگرچہ گذشتہ چند برسوں میں خواتین پر تشدد اور جنسی ہراسمنٹ کے حوالے سے نمایاں قانون سازی ہوئی ہے لیکن قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے قانونی اور عدالتی نظام بھی معاشرے میں عورتوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔مردانہ بالادستی کے اصول پر قائم ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت کو ابھی بھی ڈھور ڈنگر اور دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ مردانہ بالادستی کے اعتقادات پر مبنی نظام میں مرد کی فوقیت اور عورت کی کمتر حیثیت کو اس طرح سے اجاگر کیا جاتا ہے کہ ان پڑھ اور کم پڑھی لکھی روایتی خواتین بھی یہ یقین کر لیتی ہیں کہ مردوں کو نہ صرف تشدد کے ذریعے خواتین کو قابو میں رکھنا چاہیے بل کہ مرد رقم اور جائیداد کی ملکیت کی بنا پر خواتین کو قابو میں رکھنے پر قادر ہیں ۔ خواتین کے ایسے اعتقادات اور کمزور نظام انصاف کی وجہ سے معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف گھریلو اور سماجی سطح پر تشدد اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔خدیجہ تشدد کیس کو نور مقدم قتل کیس جتنی اہمیت ملے اورسول سوسائٹی سمیت خواتین کے حقوق کی سرکردہ جماعتیں خدیجہ کو انصاف دلانے کے لیے نور مقدم کیس جتنی کوششیں کریں تو تمام تر سیاسی وابستگی اور اثر ورسوخ کے باوجود اس کیس کے مرکزی ملزم شیخ دانش سمیت دیگر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکتی ہے۔

اگرچہ نور مقدم قتل کیس اور خدیجہ تشدد کیس میں کچھ اہم فرق بھی ہیں تاہم دونوں کیسز میں مرکزی ملزمان نے شادی سے انکار پر ہی لڑکیوں کے خلاف انتہائی اقدام اٹھائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی و ریاستی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کیسز کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔خدیجہ کو انصاف ضرور ملنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی شیخ دانش اپنی دولت کے گھمنڈ اور سیاسی اثر ورسوخ کے بل بوتے پر کسی کمزور اور نہتا لڑکی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔

جواب دیں

Back to top button