
مظہر چودھری
عالمی سطح پر جائزہ لیں تو مجموعی طور پر دنیا کا لٹریسی ریٹ یا شرح خواندگی کافی بہتر یعنی86فیصد سے زائد ہے تاہم دنیا کے مختلف خطوں اور قوموں کی شرح خواندگی میں نمایاں فرق ہے۔ترقی یافتہ قوموں سمیت دنیا کے 31ممالک میں لٹریسی ریٹ99فیصد ہے جبکہ گرین لینڈ،اینڈورا، جنوبی کوریااور ازبکستان میں شرح خواندگی 100فیصد ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان سمیت دنیا کے20ممالک ایسے بھی ہیں جہاں خواندگی کی شرح60فیصدسے کم ہے اور ان20میں سے آخری 12ممالک میں شرح خواندگی 50فیصد سے بھی کم ہے۔پچاس فیصد سے کم شرح خواندگی والے ملکوں میں نمایاں نام افغانستان، مالی، جنوبی سوڈان ، چاڈ اور نائجر ہیں۔افغانستان کی شرح خواندگی43فیصد جب کہ نائجرکی ایک اشاریہ زیرو نوفیصد ہے۔ ان پڑھ بالغوں کی سب سے زیادہ تعداد جنوبی ایشیا، مغربی ایشیااور افریقی ممالک میں ہے۔مجموعی طور پردنیا بھرمیں 78 کروڑ سے زائد افراد نا خواندہ ہیں جن میں دو تہائی کے لگ بھگ خواتین ہیں۔قوموں اور مذاہب کے حوالے سے دیکھیں توعیسائی اقوام میں خواندگی کی شرح 90 فیصد سے زائد ہے جب کہ مسلمانوں میں یہ شرح 60 فیصد سے کم ہے۔15عیسائی ممالک ایسے ہیں جہاں شرح خواندگی100فیصد ہے جبکہ مسلم ممالک میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کی شرح خواندگی100 فیصدہو۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی جانچنے کا پیمانہ یہ لیا جاتا ہے کہ فرد انگریزی ،اردو یا کسی علاقائی زبان میں کوئی اخباریا میگزین پڑھ سکے ، ایک سادہ خط لکھ سکے اور ریاضی کی بنیادی جمع تفریق کر سکے تاہم اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یا یونیسکو کے مطابق فرد کی خواندگی جانچنے کا معیار کسی بھی تحریری یازبانی مواد کو پہچاننے، سمجھنے، تشریح کرنے، تخلیق، رابطہ کاری اور شمار کرنے کی صلاحیت ہے۔اگرچہ ہمارے ہاں خواندگی جانچنے کا معیار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کافی نرم ہے لیکن اس کے باوجود ہماری شرح خواندگی دنیا کے مقابلے میں بہت نیچے ہے۔خطے کے ممالک میں صرف افغانستان ہی ہم سے نیچے ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈیا کی شرح خواندگی بالترتیب 74 اور 75فیصد ہے۔ایران میں خواندگی کی شرح 85فیصد جبکہ چین کی شرح خواندگی97فیصد کے قریب ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر محض ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کی ترقی کا اصل راز تعلیم ہی میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شروع دن سے ہی تعلیم کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی جس کا یہ مستحق ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم پر اوسطاً جی ڈی پی کا صرف 2فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جس کا70 فیصدسے زائد تدریسی عملے کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے۔اقوام متحدہ کا تعلیم و ثقافت سے متعلق ادارہ یونیسکو ترقی پزیر ممالک کو تعلیم کی مد میں کم از کم جی ڈی پی کا 4فیصد مختص کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ ناروے، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ سمیت کئی ایک ممالک اپنی جی ڈی پی کا چار فیصد سے بھی زائد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ دنیا بھرمیں بیشتر ریاستیں تعلیم کو یا تو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیںیا پھر تعلیمی اداروں کو غیر منافع بخش تنظیموں کے تحت چلاتی ہیںاور آئین کے آرٹیکل 25اے کے تحت ریاست 5سے16سال تک کی عمر کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی پابند ہے لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ہاں نجی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے زیادہ ہے جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ریاست ہر بچے کومفت تعلیم دینے کے بنیادی فریضے میں بری طرح ناکام ہے۔ریاستی اور حکومتی سطح پر ہر بچے کو تعلیم کی فراہمی میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ہاں پڑھنے کی عمر کے دو کروڑ بچے سکولز نہیں جاتے۔
ہمارے ہاں وقتاً فوقتاً سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں میں لانے کے لیے وفاقی و صوبائی سطح پر مختلف قسم کے پروگراموں کا اجرا ہوتا رہا ہے لیکن حکومتوں کی قبل از وقت تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ان پروگرامز پر صیح طرح سے عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ایسا ہی ایک پروگرام سابقہ حکومت نے گذشتہ سال احساس تعلیمی وظائف کے نام پرشروع کیا تھا جس کے تحت وفاقی حکومت نے پاکستان کے تمام اضلاع میں غریب اور مستحق خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کی راہ میں حائل مالی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے بچوں کو پرائمری، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطحوں پر سہ ماہی تعلیمی وظائف دینے کا اعلان کیا تھا۔ان وظائف کے تحت پرائمری سطح پر لڑکوں کو15سواور لڑکیوں کو دو ہزار روپے سہ ماہی وظیفہ دینے جبکہ سیکنڈری سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کو بالترتیب2500اورتین ہزارروپے جبکہ ہائر سیکنڈری تعلیم کے لیے لڑکوں کو 35سواور لڑکیوں کو4ہزار روپے سہ ماہی وظیفہ دینے کا اعلان ہوا تھا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میںاسی طرح کے ایک اور پروگرام کے تحت بھٹہ مزدور بچوں کو تعلیمی وظائف جاری کر کے خواندگی کی شرح کو محدود پیمانے پر بڑھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔اس کے علاوہ مختلف ادوار میں انسانی ترقی کے قومی کمیشن سمیت مختلف اداروں کی جانب سے ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں خواندگی مراکز قائم کیے جاتے رہے ہیں۔
تلخ حقائق یہ ہیں کہ خواندگی کو فروغ دینے کے لیے شروع کیے جانے والے ایسے پروگراموں کے باوجود ابھی تک دو کروڑ کے قریب بچے سکولوں سے باہر ہیں۔گلوبل انوویشن انڈیکس کی گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق کم شرح خواندگی اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کم ہونے سے پاکستان تخلیقی صلاحیتوں کی کمی کا شکار ہے۔گذشتہ ایک دہائی سے ملک میں خواندگی کی شرح 60فیصد کی شرح پر جمود کا شکار رہنے کے بعد اب قدرے سست رفتاری سے بڑھنے لگی ہے۔اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال شرح خواندگی چار اشاریہ صفر فیصد بڑھ کرآٹھ اشاریہ چھ دو فیصد تک پہنچ گئی ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 3 سے 5سال کی عمر کے ایک کروڑ 44لاکھ بچوں نے تدریسی عمل شروع کیا جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں چار اشاریہ چھ فیصد زیادہ ہے۔اسی طرح پرائمری جماعتوں میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد دو اشاریہ چار فیصد بڑھ کر اب دو کروڑ 57لاکھ ہو گئی ہے۔مڈل جماعتوں کے طلبہ میں چارفیصد اضافے کے بعد مجموعی تعداد 83 لاکھ جبکہ نویں اور دسویں جماعتوں کے بچوں کی تعداد پانچ اشاریہ چھ فیصد بڑھنے کے بعد 45لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔مجموعی طور پر ملک میں 73فیصد مرد جبکہ 52 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔پنجاب میں خواندگی کی مجموعی شرح66فیصد، سندھ میں اکسٹھ اشاریہ آٹھ، خیبر پختونخوا میں پچپن اشاریہ ایک اور بلوچستان میں چون اشاریہ پانچ فیصد ہے۔