CM RizwanColumn

سازشی تھیوریاں اور ہماری نفسیات ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

کسی بھی ملک کے صاحبان اختیار واقتدار اور طبقہ اشرافیہ کے پاس جہاں عام شہریوں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو یا پھر یہ کہ وہ اپنے ملک اور قوم کو کلی یا جزوی طور پر دینا بھی کچھ نہ چاہتے ہوں ۔اپنے ملک کی مجموعی یا مخصوص سطح کی رائے عامہ کو گمراہ کرکے اس کا وقت ضائع کرنا چاہتے ہوں تو وہ مختلف سازشی تھیوریاں پھیلانے کا جعلی اور مذموم سہارا لیتے ہیں۔ یہ الزام مذکورہ بالا طبقوں پر اس لیے لگایا جارہا ہے کہ وہ یا تو ان سازشی تھیوریوں کے خود ہی خالق ہوتے ہیں یا پھر ان کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی قوم کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی بجائے ان سے فوائد اٹھاتے ہیں یا پھر قوم کو گمراہی کی راہ پر گامزن ہی چھوڑنے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں سازشی تھیوریوں کا ازل سے لے کر تادم تحریر اس قدر بھرمار اور رواج رہا ہے کہ قوم کو ان سازشی تھیوریوں کی اب تو گویا لت پڑ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک کے طول و عرض میں کوئی بڑی بدخبری یا شرارت پر مبنی تھیوری نہ چل رہی ہو تو ہمارے عوام ایک عادی نشئی کی طرح اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر اشرافیہ میں سے ہی چند کاریگر لوگ یہ تھیوریاں تیار کر کے میڈیا پر جاری کرتے رہتے ہیں۔ آج کل تو سوشل میڈیا نے یہ کام اور بھی آسان کردیا ہے۔ تازہ مثال بلوچستان کے سسی پنوں تھل میں کریش ہونے والے فوجی ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے اور اس میں متعدد اعلیٰ فوجی افسران کی شہادت کا اندوہناک اور افسوسناک واقعہ ہے۔ جس کو لے کر پچھلے ایک ہفتہ سے روز بروز نئی نئی سازشی تھیوریاں آزمائی جا رہی ہیں۔ افسوس ناک پہلو اس فضول عمل کا یہ ہے کہ انتہائی اہم اور معتبر ادارے کی ساکھ متاثر کرنے کی اس ناکام کوشش کو بھی محض اپنی قومی نفسیات سے مجبور ہو کر ہم اپنی روزانہ کی چسکا باز طبیعت کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش میں اسے بڑھاوا دے رہے ہیں۔
سازشی تھیوری دراصل اس مفروضے کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے کسی خاص واقعے کی کوئی ایسی توجیہہ کی جاتی ہے جو اس کے بارے میں مشہور نظریے یا سوچ سے ہٹ کر ہو۔ دنیا بھر میں ایسی بہت سی کانسپریسی تھیوریز گردش کرتی رہی ہیں، ان میں سے اِکا دُکا درست بھی ثابت ہو جاتی ہیں، مگر بیشتر تاریخ کے ترازو میں بے وزن ثابت ہوئی ہیں۔
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے پراسرار قتل کے بارے میں ایسی بہت سی تھیوریز پھیلائی گئیں۔ ان میں سے متعدد تو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جبکہ کچھ ابھی تک زندہ ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں پرل ہاربر پر جاپانی حملہ پر مشہور سازشی تھیوری آزمائی گئی، جس کے مطابق اس وقت کی امریکی حکومت کو اس حملہ کا اندازہ تھا، مگر ایسا ہونے دیا گیا، تاکہ بعد میں امریکی عوام کے اشتعال کا فائدہ اٹھا کر امریکہ جنگ عظیم میں شامل ہو سکے۔
گیارہ سال قبل ہونے والا نائن الیون ایسا واقعہ ہے، جس کے بارے میں ہر قسم کی تھیوری گھڑی گئی، کہا گیا کہ یہ حملہ امریکہ نے خود کرایا۔ حد یہ ہے کہ القاعدہ والے اپنی مختلف جہادی ویب سائٹس پر اس حملے کو تسلیم کر چکے مگر یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو نہ صرف نائن الیون کا ذمہ دار القاعدہ کو نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ تو القاعدہ نام کی کسی تنظیم کے وجود سے ہی یکسر انکار کردیتے ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظمؒ کی وفات کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں ایک سازشی تھیوری موجود ہے، جس کے مطابق قائد کو ائیرپورٹ سے گھر لے جانے کے لیے دانستہ خراب ایمبولینس بھیجی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض حلقے ویسے تو ہر قسم کی سازشی تھیوریز کو رد کرتے ہیں، مگر اس خراب ایمبولینس والی تھیوری کو انہوں نے پھیلایا۔
اس پر غورکوئی نہیں کرتا کہ قائد کی حالت بہت زیادہ خراب تھی، ان کا مرض آخری سٹیج پر تھا اور ان کے پاس مہلت نہایت کم رہی تھی، اسی لیے انہیں زیارت سے ان کے گھر منتقل کیا جا رہا تھا، تاکہ وہ آخری سانسیں اپنے گھر میں آرام سے لے سکیں۔ ویسے بھی جس شخص کے پاس دو چار دن ہی بچے ہوں، کون بیوقوف اسے قتل کرے گا؟ بہرحال ماننا ہی پڑے گا کہ دنیا کی قریباً تمام حکومتیں ہی جھوٹ بولتی ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ اکثر امریکی حکومتیں بھی بھیانک جھوٹ بولتی رہی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ امریکی حکومت جو بھی کہے گی وہ جھوٹ ہو گا۔ تین سال پہلے جب کرونا کی وبا پھیلی تو دنیا کو سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا ہوا ہے، اِس ضمن میں طرح طرح کی سازشی تھیوریاں گھڑی گئیں، کسی نے کہا کہ یہ بل گیٹس کا ویکسین بیچنے کا منصوبہ ہے، کسی نے مغربی ممالک کو موردِ الزام ٹھہرایا، کسی نے فائیو جی نیٹ ورک کی لہروں سے اِس کے تانے بانے ملائے، کسی نے پرانی فلم کا کوئی سین نکال کر دکھایا کہ دیکھو
سازش پکڑی گئی، کسی نے اسے مسلمانوں کی احکام شریعت کی نا فرمانی یا پھر مغرب کی حکم عدولیوں کے ساتھ جوڑ دیا، کسی نے کہا کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا ہے، کسی نے کہا کہ حکومت غیر ملکی امداد لینے کے لیے کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے حتیٰ کہ مریضوں کو خود ہی مروا رہی ہے۔ پھر یہ بھی کہ بعض لوگوں نے سرے سے کرونا وائرس کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کردیا۔ تب ان باتوں پر بڑا دھیان دیا جاتا رہا لیکن آج تین سال بعد یہ تمام سازشی تھیوریاں دم توڑ چکی ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس کا عزیز، دوست یا رشتہ دار اِس وائرس کی زد میں آکر فوت یا علیل نہ ہوا ہو، جو لوگ ویکسین لگوانے والوں کا تمسخر اڑاتے تھے انہوں نے بعد میں بوسٹر ڈوز تک لگوائی اورجو اسے کفار کی چال کہتے تھے، انہوں نے بھی اس موذی وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا مگر اِس کے باوجود شاید ہی کوئی ایسا ذی شعور ہو جس نے ان سازشی نظریات پھیلائے جانے والی غلطی کا اعتراف کیا ہو۔ لوگ کرونا وائرس سے مر گئے مگر انہوں نے اِس کے وجودکو تسلیم نہیں کیا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس بنا پر لوگ سازشی نظریات کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ صدقِ دل سے اس کی ترویج بھی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو ان دیکھے دشمن کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ اپنی زندگی کی ناکامیوں اور پریشانیوں کا ملبہ ڈال سکیں یا اسے اُن واقعات کا ذمہ دار قرار دے سکیں جو اُن کے لیے تباہ کُن پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ان دیکھا دشمن کوئی بھی ہو سکتا ہے، اِس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ حقیقتاً کوئی مجرم ہو، کرونا کے معاملے میں بل گیٹس جیسے شخص کو لوگوں نے ولن بنا ڈالا۔
سازشی نظریات کی اصل وجہ لوگوں میں پائی جانے والی عمومی بے چینی، بے بسی اور اضطراب ہوتا ہے، ہر شخص بات کی گہرائی میں نہیں جاتا، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر معاملے کی پڑتال کرکے دیکھے کہ حقائق کیا ہیں۔ اس لیے آسان کام یہی ہوتا ہے کہ جو سازشی تھیوری چل رہی ہوتی ہے سب اسی کے عامل اور عادی بن جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ جھوٹی بات ایک بڑا سچ سمجھی جانے لگتی ہے۔ سیاست میں تو ایسا اکثر اور لازماً ہوتا ہے کہ بعض شخصیات پر بعض الزامات اور بیانات لازم قرار دے دیئے جاتے ہیں اور جب کسی الزام لگاتے والے سے ان الزامات کا ثبوت مانگا جاتا ہے تو اس کو چپ لگ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سازشی تھیوری کو رد کرنے کے لیے ذہنی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، تعصبات سے بالا تر ہو کر سوچنا پڑتا ہے اور بعض تلخ حقیقتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے، مبنی بر حقیقت تفتیش کرنی پڑتی ہے اور چونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں، عام لوگ اِس طرح نہیں سوچتے، وہ عموماً سرسری انداز میں معاملات کو دیکھتے ہیں اور پھر ایک نقطہ نظر اپنا لیتے ہیں، انہیں اُن باتوں میں بہت کشش نظر آتی ہے جن پر وہ آسانی سے یقین کر سکیں اور زیادہ تردد نہ کرنا پڑے اور یوں سازشی نظریات نہ صرف جنم لیتے ہیں بلکہ ملک وقوم کی اخلاقیات اور سیاست و معیشت کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اپنی75 سالہ تاریخ میں اپنے اوپر آزمائی جانے والی سازشی تھیوریز کے اثرات کے اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ اب سازش اور جھوٹ ہی ہمارا کل اثاثہ رہ گیا ہے اور کچھ بچا ہی نہیں۔ سازش کرنا اور اس کے اثرات بخوشی قبول کرنا ہماری مجموعی قومی نفسیات بن چکی ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button