ColumnImtiaz Ahmad Shad

قوم قربانی کیلئے تیار ہے؟ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

دنیا میں کہیں معاشی ظلم اور نا انصافی نظر آتی ہے تو وہ وسائل معاش میں کمی کے باعث نہیں بلکہ انسانوں کی طرف سے ان وسائل کی غلط اور غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کیلئے راہ ہدایت کا سرچشمہ نبی مہرباں ﷺ کو بنا یا اور قانون کے لیے اپنی آخری کتاب قرآن کریم نازل فرمائی۔ اسلام دین فطرت اور اس میں انسان کو ہر نقصان دہ شے سے منع کیا گیا ہے۔ معیشت جو انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے اور اس کے بارے میں دین اسلام کے اندرمکمل رہنمائی موجود ہے تاکہ عوام الناس کے اندر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو روکا جاسکے۔دنیا بھر میںاقوام رنگ و نسل اورزبان کی بنیاد پر وجود میں آئیں جبکہ پاکستانی واحد قوم ہے جو نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی اور اس کا بنیادی نعرہ کلمہ طیبہ ہے ،قوم اسلام کو نظریہ حیات مانتی ہےاور جس قوم کا دعویٰ ہے کہ زندگی کے ہر گوشے میں رہنما صرف اسلام کے سوا اور نہیں ہو سکتا اورایمان ہےکہ عبادات سے لیکرمعاملات تک، خاندانی نظام سے لے کر ریاستی امور تک کوئی بھی عمل قرآن و سنت سے باہر نہیں ہونا چاہیے، افسوس کہ وہ قوم اقوام عالم میں ہر جگہ ذلت و رسوائی کا سامنا کیے ہوئے ہے۔ غور طلب بات ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے پوری دنیا سے انسانیت کا استحصال ختم ہوا مگر اسلام کو نظریاتی اساس ماننے والی قوم آج ظلم و جبر، استحصال، نا انصافی، خاص کر معاشی استحصال کا شکار کیوں ہے ؟واضح نظر آرہا ہے کہ پوری قوم بے بسی کی تصویر بنے تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے اور حکمران اغیار کی گود میں بیٹھے قوم کی اس بے بسی پر قہقہے لگا رہے ہیں۔اگر نظام عالم کو دیکھا جائے جو انسانوں نے اپنے ایسے انسانوں کو دبانے کے لیے بنا رکھا ہے تو یقیناً اس میں کمزور طبقے کے لیے کچھ نہیں۔اس نظام میں طاقتور کو ہی مزید طاقت فراہم ہوتی ہے کمزور کو ہر سطح پر دبایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معیشت کا چند ہاتھوں میں کنٹرول ہے،یہ جو ہمیں انسانیت میں بڑھتی بے روز گاری، افلاسی مجبوری، بے بسی اور استحصال نظر آتا ہے اس کے پیچھے دنیا کا معاشی نظام ہے، جسے عرف عام میں سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے صرف امیر کو حق حاصل ہے کہ وہ معاشرے کو لیڈ کرے یعنی دولت والوں کو مزید دولت کمانے کے چانس، امیر امیر سے امیر تر، غریب غریب سے غریب تر، یہی نظام پوری دنیا میں استحصال کا سب سے بڑا سبب بن رہا ہے۔ غریب آدمی ظلم و جبر کے اس نظام میں بہت پس رہا ہے نہ روزگار، نہ تعلیم، نہ صحت۔ غلامی، اندھیرے اور استحصال کے اثرات پوری دنیا میں پوری شد و مد کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں اور اس کی لپیٹ میں آنے والوں کی فہرست میں پاکستان شاید پہلے نمبر پر آ چکا۔اس استحصالی نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طاقتور انسان حکمرانی کے ذریعے دیگر انسانوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں پھر من چاہے فیصلے ہوتے ہیں بلکہ منوائے جاتے ہیں ،قوموں کو معیشت کی چکی میں جکڑ کر پھر اپنے فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں، یوں انسانیت اپنے حقوق سے پوری طرح محروم ہو جاتی ہے۔
مغلوب قوم کا نہ اپنا کوئی فیصلہ ہوتا ہے نہ ویژن نہ کنٹرول بلکہ اسے صرف فیصلے ماننے ہوتے ہیں، عوام بے کسی مجبوری کسمپر سی کی زندگی گزرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، امیر زادوں کا پورا نیٹ ورک قوموں پر حکمران بن جاتا ہے اس میں قابلیت صرف امیر ہونا ہے کچھ خاندان اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہیں اور قوم پر بزور بازو حکمرانی کی جاتی ہے۔ الیکشن کے بجائے سلیکشن ہوتی ہے جس سے صرف چہرے بدلتے نظر آتے ہیں باقی طرز حکمرانی بھی وہی اور لوگوں کی زندگی بھی وہی رہتی ہے۔آپ وطن عزیز ہی کو لے لیں 75 سال سے کچھ خاندان،وڈیرہ شاہی، جاگیرداری نظام میں زندگی بسر کر رہے ہیں ٹوٹل دولت کا 90 فیصد ان خاندانو ں کا ہوتا ہے اور پوری قوم صرف 10 فیصد سرمایہ پر ہی گزارا کرتی ہے۔جس قوم کا 98 فیصد حصہ 10فیصد سرمائے پر گزارا کرے اور2فیصد طبقہ 90 فیصدپر قابض ہو، اس قوم نے کیا خاک ترقی کرنی ہے۔قوم استحصال کی چکی میں پس کر اس قدر ذہنی مفلوج ہو چکی کہ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ الیکشن کے نام پر سلیکشن ہونے سے چہرے بدلتے ہیں خاندان وہی رہتے ہیںاور یہ سارا عمل نظام عالم قائم کرنے والی ان طاقتوں کی مدد سے ہوتا ہے جن کے مہرے اور کارندے وطن عزیز میں موجود وہ 2فیصد ہیں جن کے ہاتھ میں قوم کی تقدیر ہے۔عام آدمی کو تو شاید معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جن کی بڑی گاڑیوں کی دھول بن کر ہم الیکشن میں ان کو جتوانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں ان کی جیت ہار کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے، وہ تو فقط خانہ پری کے لیے چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی کے پاس طاقت آتی ہے تو وہ سب سے پہلے خود کو تقویت دینے کے لیے کمزور کو مزید دباتا ہے تاکہ اس کی طاقت کو زوال نہ آسکے۔انسانی تاریخ کا یہ ایک المیہ رہا ہے کہ جب جب کسی فرد یا قوم نے طاقت، لیاقت اور ثروت حاصل کی اس نے مزید کے لالچ میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے جنون میں دیگر معاشروں کو تباہ و برباد کیا۔
اس کی نمایاں مثال یورپی ممالک میں نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں ہیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپی اقوام نے احیائے علوم کے بعد اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر اقوام پر اپنی حکمرانی قائم کرکے ان ملکوں کو اپنی نو آبادیات بنا لیا اور ایک طویل عرصے تک برطانوی، فرانسیسی، ہسپانوی، پرتگیزی اور دیگر نے ایشائی، افریقی اور لاطینی امریکی اقوام کا استحصال کیا ان ملکوں کے قدرتی وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ ان ملکوں کے عوام کو تعلیم، تحقیق جدید علوم سے دور رکھا گیا۔ اس کے بجائے اپنی اپنی نوآبادیات میں ان یورپی ممالک نے مختلف تعصبات کو ہوا دے کر ان معاشروں کو تقسیم کرکے لڑائو اور حکومت کرو کے طریقہ کار پر عمل کیا جس سے آج کے ترقی پذیر معاشرے مزید غربت، پسماندگی اور جہالت کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ پھر ان یورپی طاقتوں نے اپنی اپنی نسل زبان اور مفادات کی خاطر عظیم جنگیں لڑیں اور دنیا کو مزید مسائل میں جھونک دیا۔ آج ان طاقتوں نے اپنی نوآبادیاتی ریاستوں میں اپنے کارندے بٹھا رکھے ہیں جو ان کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔کمزور طبقہ جب بھی اس نظام کے خلاف کھڑا ہوتا ہے یہی کرندے ان طاقتوں کا کام آسان کرنے کے لیے ملک کے وسیع تر مفاد کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں آجاتے ہیں اور قوم پھر ٹرک کی پتی کے پیچھے لگ جاتی ہے۔موزے تنگ نے کہا تھا کہ تبدیلی قربانی مانگتی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میری قوم قربانی کے لیے تیار ہو چکی۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی قوم قربانی کے لیے تیار ہو چکی؟ اب قوم کی تقدیر کا فیصلہ اس سوال کے جواب میں مضمر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button