ColumnQaisar Abbas

نومل سے نلتر زیرو پوائنٹ تک .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

گلگت کے نواح میں ایسی جھیلیں جن پر سات رنگ ہیں اور اس ست رنگی جھیل میں برف کے راج ہنس تیرتے ہیں اور پھر نیلگوں جھیل جس کے نیلے پانی چھونے سے رگوں میں دوڑتا ہوا خون جم جاتا ہے ۔ پری جھیل کا پراسرار دیدار دیکھنے والے کو کسی کوہ قاف میں لے جاتا ہے۔ ست رنگی جھیل سے پری لیک تک ریت مرجان میں ڈھل چکے ذروں میں تقسیم ہوتی ہے اور پتھروں سے جھرنے یوں نکلتے ہیں جیسے یاقوت کا سینہ چیر کر باہر نکلے ہوں ۔ ست رنگی جھیل پر درخت جھک کر اپنی عقیدت نچھاور کرتے ہیں۔ اور پانی کے اندر کے جہاں دیکھنے والے کی آنکھ سے اتر کر اس کے دماغ کو تر و تازہ کرتے ہیں ۔
بلیو جھیل کا نیلا جہان بھی عجب ہے ۔ پانی زندہ ہے اور پانی میں کھڑا درخت سوکھ کر مردہ ہو چکا ہے ۔ زندگی اور موت جھیل میں یکجا ہیں ۔ پری جھیل کے برف پانی سبز ہیں اور ایک طرف بادل کا سفید عکس ہے ۔ پاکستانی جھنڈا لیے پری جھیل اسی طرح پراسرار ہے جیسے اسے ہونا چاہیے ۔ بلند پہاڑی حصار میں بند یہ دنیا نلتر جھیلوں کی دنیا ہے ۔ ان جھیلوں کے کنارے جو پگڈنڈیاں ہیں وہ ان کناروں پر لے جاتی ہیں جہاں فطرت سرگوشیاں کرتی ہے ۔ جا بہ جا گیلے ہو چکے پتھر ہیں جن پر نیلے اور سبز رنگ چڑھے ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے ان جھیلوں کے سکوت کو توڑنا گناہ ہو ، وادئ پر کیف کے سبھی رنگ نرالے ہیں ۔ کناروں پر کوئی ہوٹل اور ٹک شاپ ہے نہ ہی کوئی خیمہ نصب ہے ، اسی وجہ سے غلاظت نے جھیل کو معاف کر رکھا ہے ۔ اور یہ سب کچھ آپ کی دسترس میں ہے۔
گلگت سے خنجراب روڈ پر نصف گھنٹہ کی مسافت کے بعد قراقرم ہائی وے سے نیچے بائیں جانب مڑیں تو نومل کی بستی اپنے دروازے وادئ نلتر کی طرف کھولتی ہے۔ قراقرم پر جوتل اور نومل دو مقامات ایسے ہیں جہاں جیپیں کھڑی ہوتی ہیں جو نلتر کی جھیلوں تک لے جاتی ہیں ۔ دریائے ہنزہ پر بنا ہوا پل عبور کیا تو سنیل جیپ سٹینڈ پر کھڑا حیدر عباس ہمارا منتظر تھا ۔ جیپ پر سوار ہوئے اور نومل بستی کی طرف چل پڑے ۔ نومل بازار سے ضرورت کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ ہم نے بھی نومل سے ایس کام نیٹ ورک کی سم خریدی اور ایک پختہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے نلتر ندی کے کنارے پر آ گئے ۔ تین کلومیٹر کے بعد پہاڑی راستہ شروع ہوا اور جیپ پتھروں سے لڑتے ہوئے آگے بڑھنے لگی ۔ سڑک پر تعمیراتی کام جاری تھا اور یوں لگتا تھا کہ جون کے آخر تک سڑک بن جائے گی ۔ پاکستان ائر فورس کے نلتر کیمپ کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی تو سنی جا رہی تھی مگر جیپ والوں کی روزی کے رستے میں روڑے اٹکائے جا رہے تھے ۔ حیدر عباس نے بتایا کہ نلتر زیرو پوائنٹ تک تو کارپٹ روڈ بن جائے گا مگر نلتر بالا ، ست رنگی جھیل ، پری جھیل اور بلیو لیک تک جیپوں کے بغیر نہیں جایا جا سکے گا۔
ایک گھنٹے کے بعد ہماری جیپ نلتر زیرو پوائنٹ پہنچی تو شام ہو چکی تھی ۔ نلتر کا بازار دس بارہ دکانوں پر مشتمل تھا اور لوگ خاموش طبع تھے ۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے سامنے سے گزر کر اگر نومل تک آئیں تو وقت بہت کم لگتا ہے مگر ہم
قراقرم ہائی وے سے اترے تھے اور پھر نومل بازار تک آئے تھے ۔ حیدر عباس نے بتایا کہ یہاں پر جب برف پڑتی ہے تو پاکستان ائر فورس کے زیر اہتمام اسکیٹنگ کے مقابلے ہوتے ہیں ، اس وجہ سے سال بھر کی روزی مل جاتی ہے ۔
ندی کنارے بھاری بھرکم حفاظتی بند تعمیر کئے جارہے تھے تاکہ سڑک محفوظ رہے ۔ بارش شروع ہوئی تو ٹھنڈی ہواؤں نے گد گدانا شروع کیا۔کسی وادی کی پہلی سلامی ہمیشہ بارش ہوتی ہے اور ایسی بارش ہمیں ترشنگ پہنچنے سے پہلے بھی ملی تھی۔ایسی بارش دیوسائی تک ہمارا استقبال کر چکی تھی ۔ان بارشوں سے بہت بار پالا پڑا تھا ۔ یہ ہمارے لیے کسی وادی کا ٹریلر تھا ۔نلتر کی چیک پوسٹ پر اندراج ہوا اور پھر ہم زیرو پوائینٹ چوک پر آ گئے۔ ندی کنارے ، بارش اور سردی۔۔پھر شام۔۔
نجیب بھائی کو حیدر عباس نے ہماری آمد سے آگاہ کر رکھا تھا اس لیے کوئی مشکل نہیں آئی اور ہم ایک ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے ۔ سامان جیپوں سے اتارا گیا اور بارش رکنے کو انتظار کیا جانے لگا۔ چکن سوپ ، بریانی اور ہانڈی کا آرڈر اسرار چوہدری نے دیا اور کچن سے اٹھنے والی خوشبو ہر سمت پھیل گئی۔ ڈاکٹر عینی ہاشمی کی ملاقات اپنی کلاس فیلو دوست ڈاکٹر سے ہوئی اور حیران ہم ہو گئے ۔ بارہ سال بعد کسی پنجاب کے دوست کا نلتر میں مل جانا بہت عجیب تھا ۔ بچھڑے دوست میلوں میں ملتے تھے مگر ان دونوں ڈاکٹرز کی ملاقات ایک ایسی وادی میں ہوگئی ، جہاں ملنے سے بچھڑنے کا امکان زیادہ تھا۔سوپ بالکل تھری سٹار ذائقے والا تھا اور بریانی میں نلتر کی بارش کا نشہ تھا یا وادئ کا حسن تھا کہ ہم
سب خمار میں آ گئے ۔ کینڈل لائٹ ڈنر ، بارش کی آواز ، سردی اور سب سے چھوٹی سیاح آیت زہرا کی باتیں ، رنگ بھرے جاتی تھیں۔
ناران سے نکلے تھے تو ایسے موسموں کی توقع نہ تھی ۔ قراقرم سے اترتے ہوئے بھی ہم نہیں جانتے تھے کہ نلتر وادی نہیں ایک جنت ہوگی اور اس جنت میں نلتر ندی کا شور بھی بھلے لگے گا۔ ایک بھرپور ڈنر کے بعد چائے بھی نلتر کے موسم مزاج والی تھی ۔ بارش کی وجہ سے بون فائر نہ ہو سکا کیونکہ لان میں پانی تھا ۔بارش جاری تھی اور اسی بارش میں ہم بھیگتے ہوئے کمروں میں آ گئے ۔نلتر کانٹی نینٹل ہوٹل کے خوبصورت لان میں نلتر ندی کا شور بھلا لگتا تھا ۔ جون کے دوسرے عشرے کے دن بھی چھ درجہ حرارت لئے ہوئے تھے اور راتیں اس سے بھی سرد ۔ علی کو الگ سے کوئی کمرہ میسر آیا اور وہ ہمیشہ کی طرح تنہائی پسند ہی رہا۔ علی کے لئے نئے جوگرز نلتر بازار سے مل گئے ۔ چھ دکانوں پر مشتمل بازار میں پانچ دکانیں پرانے جوگروں کی تھیں ۔ وہاں سے پہاڑوں پر چڑھنے والا سامان ملتا تھا اور مہنگا بھی نہیں ملتا تھا۔
کمرے میں پہنچے اور فوزیہ نے سامان ترتیب سے نکالا ۔ موسم کے مطابق جیکٹس نکالے اور بیڈز الاٹ کئے ۔ اسرار احمد کی طرف سے لائے گئے آم کھائے گئے اور پھر راشد ڈوگر نے لیٹ نائٹ سیون آپ کا دور چلایا ۔ کھائے ہوئے کھانے کو وہ ہمیشہ ایسے ہی ہضم کرتے تھے ۔رات دیر تک میں نے نلتر کو سوئے ہوئے اور اسرار احمد کو جاگتے دیکھا گیا ۔ انہیں کبھی زیرو پوائنٹ چوک پر اور کبھی لان میں کھڑے ہو کر اپنے کیمرے کو آزماتے ہوئے دیکھا گیا ۔ہماری جیپوں کے ڈرائیور صبح ہمیں نلتر جھیلوں کی طرف لے جانے والے تھے۔
پرتکلف ناشتے کے دوران جیپوں کے انجن جو آواز پیدا کرتے تھے ، اسی میں ان دیکھے جہانوں کو دیکھنے کا بلاوا تھا ۔ ایک تجسس تھا جو ہمیشہ نئی راہوں کی طرف جانے والوں کو لاحق ہوتا ہے ۔
صبح ہوتے ہی ہم سب جیپوں پر سوار ہوئے اور نلتر بالا کی طرف چل پڑے ۔ بازار سے نکلے تو تہہ در تہہ بنے زرخیز قطعات میں آلو کی فصل تیار تھی اور یہی وہاں کے لوگوں کا ذریعہ آمدنی تھا ۔ آبادی کم ہوتی گئی اور پائن کے جنگل کسی فلم کا منظر پیش کرنے لگے ۔ انہی جنگلوں میں بشیکری کی چھوٹی سی آبادی تھی اور جنگلوں میں ایسی آبشار تھی جو درختوں کو اکھاڑنے پر تلی تھی ۔ وہ آبشار ایک مکمل دریا تھی جو میدان پر ایستادہ درختوں کو گھیرے میں لئے ہوئے تھی ۔اس آبشار پر گھنٹوں ہم کھڑے رہے اور شائد اس لئے بھی کھڑے رہے کہ یہ آبشار فوزیہ کی پسندیدہ آبشار تھی ۔ نہ جانے یہاں پر ، اس جنگل میں ایس کام کے سگنل کہاں سے آ گئے ، ملتان ہائیکورٹ سے صابر سلیم نے بہت اچھی خبر دی اور یہ منظر کچھ زیادہ بھلے لگنے لگے ۔ آسمان سے باتیں کرتے درختوں کی جڑیں انسانی آنتوں کی طرح سطح زمین پر جال بنائے ہوئے تھیں مگر پھر بھی یہ آبشار انہیں نگلنے والی تھی ۔ جنگل کے بیچ جاتا ہوا راستہ ہر قدم پر حیران کرنے والا تھا ۔
پھر جیپ ڈرائیور نلتر جھیلوں کی طرف جانے والے راستے سے گھنے جنگل کی برف مڑ گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button