ColumnNasir Naqvi

اس بار بدلے گا؟ ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

کہتے ہیں منفی سوچیں تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ خواب بھی اچھے، خوبصورت اور سہانے دیکھنے چاہئیں تاکہ ان کی تعبیر بھی بہترین ہو، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ خواب عالمِ مدہوشی میں آتے ہیں خود سے سجائے نہیں جا سکتے، پھر بھی سیانے یہی بتاتے ہیں کہ اگر آپ کی سرگرمیاں مثبت اور اچھائی سے جڑیں ہوں گی تو خواب ان کے تابع ہو جائیں گے، ورنہ رحمان کے ساتھ شیطان تو تاابد موجود ہے بہکانے کیلئے،اس لیے مشورہ یہی ہے کہBe Positive۔ بات تو درست یہی ہے لیکن جب نتائج مثبت نہ ملیں تو آدم زادے گھبرا کر مایوس ہو جاتے ہیں، ہربار سوچتے ہیں کہ ا س مرتبہ سب کچھ بدلے گا، اسی سوچ سے تبدیلی کے نام پر کھلاڑی عمران خان سے امیدیں وابستہ کیں، جیسے تیسے آزمائے ہوئے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کیا گیا، کچھ نے اس نئے کی حمایت کی اور کچھ نے مخالفت کی کہ کھلاڑی اناڑی ہے بھلا وہ ملک و قوم کیلئے کچھ نیا کیسے کرے گا؟

اس نے بھی نئے پاکستان، ایک پاکستان کی یقین دہانی کرائی اور وعدہ کیا کہ مسلمانوں کے پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘کی بنیاد پر کھڑا کریں گے، انصاف کا بول بالا اور جھوٹے کا منہ کالا ہو گا،چوروں، ڈاکوئوں کے ساتھ قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب بلا امتیاز کر کے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی لیکن سب نے دیکھا، پکڑ دھکڑ اور جکڑ کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، سیاسی انتقام کے الزامات لگے، ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ عالمی بلیک میلر اور اٹھائی گیرے آئی ایم ایف کے چنگل میں پھر پھنس گئے۔ معاشی صورت حال ایسی بگڑی کہ خانِ اعظم عمران خان اپنا اقتدار بھی کھو بیٹھے۔ عام تاثر تھا کہ سپورٹس مین سپرٹ سے معاملات سدھریں گے لیکن نتائج یکسر الٹ نکلے۔ اپوزیشن متحد ہو گئی، پی ڈی ایم نے پی پی پی سے بھی مدد مانگ لی اور آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی اور جمہوری انداز میں ایوان میں اکثریت دکھا کر تبدیلی آ گئی۔ مہنگائی کے ستائے لوگوں نے سوچا کہ ساڑھے تین سالہ تبدیلی سرکار کی کارکردگی سے متحدہ اپوزیشن نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں بہت کچھ سیکھا ہو گا لہٰذا پاکستان اور پاکستانی سیاست کا میدان ’’اس بار بدلے گا‘‘ لیکن کیا بدلا؟ کیا نہیں بدلا؟ وہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بحران بلکہ حالات پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہو گئے۔ موجودہ حکومت کے دعوے اور یقین دہانیوں کے باوجود کچھ نیا نہیں ہو سکا۔ الزامات کی لفظی جنگ جاری ہے کہ اناڑی کھلاڑی ایسا کھلواڑ کر گئے کہ سنبھلا نہیں جا رہا، سابق وزیراعظم کی للکار ہے کہ ہمیں اناڑی اور نالائق کہنے والے تجربہ کار اقتدار میں آ کر صفر ہو گئے۔ اب مسائل کا واحد حل اور استحکام پاکستان کی راہ ہموار کرنے کیلئے نئے انتخابات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اگر قوم نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا تو پاکستان اس بار ضرور بدلے گا،عوام پریشان ہے کہ وہ کب تک وعدوں اور یقین دہانیوں سے گزارا کرے، عمل درآمد یقینی ہوتاہوا تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا، پھر بدلے گا، اس بار بدلے گا، کو سچ کیسے سمجھیں۔ مجھے
’اس بدلے گا‘ کی تکرار میں یہ قطعہ یاد آگیا جو ہمارے ایک دوست نے بھیجا ہے چونکہ دوست صرف ہاتھ ملانے والا ہی نہیں، برسوں کا آزمودہ ہے اس لیے یہ قطعہ آپ کی نذر کر رہا ہوں ؎

لگی ہے پھر صدا اک بار کہ سردار بدلے گا
فرعونی سلطنت کا بس اک کردار بدلے گا
جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو
وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا

یہ قطعہ کس کا ہے ، مجھے نہیں معلوم لیکن حسبِ حال اور بروقت ضرور ہے۔ اس لیے کہ ہمیں حکمرانوں نے ہمیشہ سنہری خواب دکھا کر اقتدار حاصل کیا اور جب تخت اقتدار مل گیا تو سابق حکمرانوں کے طعنے دے دے کر ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا، ہمارے ہاں جمہوریت ہمیشہ کنٹرولڈ رہی، آمریت بھی ایک سے زیادہ مرتبہ برداشت کی گئی لیکن معصوم عوام اسی امید پر رہی کہ ’’اس بار بدلے گا سب کچھ ‘‘ _اس نے بار بار دھوکہ کھایا ، تبدیلی اور پاکستان کے بدلنے کے نعرے اور وعدے پر،پھر بھی کچھ اس لیے نہیں بدلا کہ نہ ہم بدلے اور نہ ہی ہماری سوچ۔ طالع آزما ہمیں ہی مختلف بہانوں اور پرکشش نعروں سے آزماتے رہے اور ہم بے وقوف بنے رہے کہ اس بار ضرور کچھ نہ کچھ بدلے گا۔

2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی سرکار آئی تو تیسری پارٹی کے صاحبِ اقتدار بننے سے ایک بار پھر یہ محسوس کیا گیا کہ ماضی کے مقابلے میں عمران خاں کچھ نیا ضرور کریں گے لیکن انہوں نے بھی پرانے انداز کو نئی پیکنگ میں متعارف کرا کے الزامات کے سوا کچھ نہیں جوڑا، کرپشن کے مقدمات بھی احتساب کے نام پر بنائے گئے ۔ پھر بھی سب کچھ لاحاصل رہا، قرضوں کی بہتات اور مہنگائی پر متحدہ اپوزیشن نے محاذ گرم کیا اور اکثریت کے نام پر تبدیلی آئی، متحدہ اپوزیشن کی قومی حکومت سے امیدیں وابستہ کی گئیں کہ وہ کھلاڑیوں کے کھلواڑ کا ازالہ کر کے کچھ بدلیں گے لیکن امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا دعویٰ درست ثابت ہوا کہ چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوا ، بدلنا ہے تو نظام بدلیں، جس کی فی الحال کوئی توقع نہیں۔

وفاتی حکومت جیسی تیسی چل رہی ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مہینوں گزرنے کے باوجود کچھ نہیں بدلا، بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، پارلیمانی بحران تاریخ کی بدترین سطح پر آ چکا ہے۔ پہلی مرتبہ کبھی وزیراعلیٰ زیر عتاب، کبھی گورنر۔ حمزہ وزیراعلیٰ بنے تو کابینہ غائب بلکہ پہلے ان کا حلف نہیں لیا گیا پھر عدالتی مداخلت پر کارروائی مکمل کی گئی تو بھی بے اختیار اس قدر رہے کہ وزراء کو محکمے تک نہیں دے سکے۔پھر ضمنی الیکشن کے غیر متوقع نتائج نے نئے امتحان میں مبتلا کر دیا۔ عدالت کی کارروائی پر نیا انتخاب وزیراعلیٰ عمل میں لایا گیا تو پارلیمانی تاریخ کا نیا تماشا برپا ہو گیا۔ آصف زرداری کی کوشش سے چودھری شجاعت کے خط نے اکثریتی امیدوار پرویز الٰہی کی امیدوں پر پانی پھیر دیااور مونس الٰہی نے اپنی اور عمران خان کی شکست ہی تسلیم نہیں کی بلکہ زرداری کی جیت کا بھی اعلان کیا تاہم اس دور کے لوگ بڑ ے خوش قسمت یا بدقسمت ضرور ہیں کہ جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر ایسی معرکہ آرائی دیکھی جو نہ پہلے کسی کو دیکھنے کو ملی اور شاید آئندہ بھی نہ ملے، لیکن اقتدار اور تخت لاہور کی کشمکش میں کامیابی کے باوجود، حمزہ شہباز کا اقتدار عدالتی فیصلے کا مرہون منت بن گیا،

حکومت اور وزراء نے فل بینچ کا مطالبہ کیا تو صدر عارف علوی نے نئی حکومت کے قیام پر زور دیا۔ ان کا فرمان ہے کہ میڈیا، اسٹیبلشمنٹ کو ایسی جمہوریت اور حکومت کے لیے کام کرنا چاہیے جو قومی امنگوں کے مطابق ہو۔ کیسا دلچسپ لطیفہ ہے کہ پارلیمنٹ اور منتخب ارکان کی حکومت موجود لیکن اپوزیشن میں بیٹھنے والی تحریک انصاف استعفیٰ دے کر پارلیمنٹ سے باہر خوش ہے۔ وہ ایوان میں آئے بغیر نہ صرف تمام مراعات کے حقدار ہیں بلکہ فوری نئے الیکشن کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔پارلیمانی بحران اور سیاسی ابتری اس حد تک غیر متوقع ہو چکی ہے کہ مجھے اس صورت حال میں ازلی دشمن بھارت کی فلم مرزا غالب میں نصیرالدین شاہ کے ڈائیلاگ یاد آ رہے ہیں:
’’یہ کیسے کمپنی بہادر آئے ہیں کہیں شہر بِک رہا ہے ، کہیں ریاست بِک رہی ہے، کہیں فوجوں کی ٹکریاں بیچی اور خریدی جا رہی ہیں۔ یہ کیسے سوداگر آئے ہیں اس ملک میں؟ سارا ملک پنساری کی دکان بن گیا ہے۔ معلوم نہ تھا کہ اتنا کچھ ہے گھر میں بیچنے کے لیے، زمین سے لے کر ضمیر تک سب کچھ بِک رہا ہے، سب کچھ بِک رہا ہے۔‘‘

اب سوچیں کہ صرف وزارتِ اعلیٰ کے حصول کے لیے کتنے کروڑوں کی بولیاں ہم نے سنیں اور پڑھیں، کون کون بِکا اور کسے کسے خریدا گیا؟ ذہن بِکے، سوچ بِکی، جمہوریت کی نیلامی لگی، پھر بھی سب کچھ بے نتیجہ، اور پارلیمنٹ کے مالک ہاتھ باندھ کر عدالت عظمیٰ میں طلب کر لیے گئے ، کیا کوئی سوچے گا؟ ہمارے سیاست دان، قائدین اور عوام کی ایسی بے توقیری کیوں ہوئی؟ کس کے پاس جواب ہے کہ ’’اس بار بدلے گے؟ ‘‘ بھلا کیسے؟ اور کیونکر کوئی نہیں جانتا وعدہ فرداً کی طرح، کہ اس بار بدلے گا یا پھر کس بار بدلے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button