ColumnNasir Sherazi

کچھ اور ہو جائے گا! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

بجٹ پیش کئے جانے کے اگلے روز اشیائے صرف کی قیمتوں میں کئی فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، چیزوں کی قیمتیں بڑھانے والے اسے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے جوڑتے ہیں، جو درست نہیں،جس شب پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا جا تا ہے، آئندہ صبح تمام سبزیاں، بیکری مصنوعات، چکن، مٹن، بیف، دودھ، دہی سب کچھ مزید مہنگا کردیا جاتا ہے، گویا ہر چیزنے پٹرول پی کر آگے قدم بڑھایا، ہر چیز کے نرخ بڑھ گئے ، ملک بھر کے مختلف شہروں میں پٹرول کی قیمتوں پر احتجاج کرتے ہوئے رکشہ ڈرائیوروں نے اپنے رکشوں کو پٹرول چھڑک کر نذر آتش کیا، جس کا اثر بجٹ بنانے والوں یا من مرضی کرنے والوں پر نہیں ہوگا۔ مہنگائی کے تازہ ترین طوفان کی زد میں آنے والے خاندانوں نے اپنے کئی بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا ہے، ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان والدین کا کہنا ہے کہ ہم روٹی پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے، پڑھائی کے اخراجات کیسے اٹھائیں، یہ بچے اب چھوٹے موٹے کاموں پر لگائے جائیں گے تاکہ دس روپے کے اعلان کے باوجود بارہ روپے میں فروخت ہونے والی روٹی اور پندرہ روپے والا نان اٹھارہ روپے میں خرید سکیں اور روکھی سوکھی کھاکر حکومت کی درازیٔ عمر کے لیے جھولیاں اٹھااٹھاکر دعائیں کرسکیں۔

مہنگائی نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے، ہمسایوں نے مرغیاں اور بطخیں پال رکھی ہیں، جن سے انڈے حاصل کیے جاتے ہیں لیکن مہنگائی کے سبب انہیں خوراک خرید کر نہیں ڈالی جاسکتی، پس صبح سویرے انہیں گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ گھوم پھر کر پیٹ بھرو اور اورشام کوگھر آجائو، میرے ہمسائے جنہیں ماں جائے کا درجہ حاصل ہے، نہایت شریف النفس ہیں، لیکن ان کی مرغیوں اور بطخوں کا چال چلن بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے مشکوک ہوگیا ہے، مرغ فیملی اور بطخ فیملی دراصل آپس میںفیملی فرینڈ ہیں،یہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتے ہیں اور منہ اندھیرے گھر کو لوٹتے ہیں، مجھے بچپن میں بتایا اور پڑھایاگیا تھا کہ کام کاج کے لیے گھر سے نکلنے اور شام سے پہلے گھر آجانے والے شریف ہوتے ہیں، شام ڈھل جانے کے بعد گھر آنے والے آوارہ سمجھے جاتے ہیں اور بلامقصد دن بھر گھومنے والے اور منہ اندھیرے واپس آنے والے بہت برے برے ناموں سے یاد کرتے ہیں، برے ناموں کی تفصیل میں جانے کی بجائے میں مختصراً عرض کئے دیتا ہوں۔

ایسے لوگوں کو وہی کچھ کہا جاتا ہے جو سابق حکومت کے دور میں وزارت خارجہ میں گھومنے والی،وزیر خارجہ اور وزیراعظم پاکستان کی کرسیوںپر بیٹھ کرویڈیو بنانے، مارکیٹ کرنے والی لڑکیوں اور پارلیمنٹ لاجز میں پائی جانے والی غیر منتخب لڑکیوں اور عورتوں کو کہاجاتا ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ خواتین عوامی نمائندگی کے لیے منتخب تو نہیںہوتیں مگر انہیں کسی اور انداز میں کسی اور خدمت کے لیے منتخب ضرور کیا جاتا ہے۔ میں نے انڈے دینے والی دو فیملیز کے بارے میں جن شکوک و شبہات کا ذکر کیا ہے، وہ کسی نہ کسی انداز میں مشاہدے میں آئے، میں نے دیکھا کہ بطخ فیملی کے سربراہ نے اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیا ہے، اس کے فرائض مرغا سرانجام دیتا نظر آیا، چند روز بعد میں نے محسوس کیا کہ مرغ کی صحت تیزی سے گر رہی ہے، ٹھیک چند روز بعد اُس سے ملاقات ہوئی تو وہ بے بال و پر نظر آیا، کچھ بال تو خرابی صحت کی بنا پر جھڑ گئے ہوں گے،

لیکن یوں لگا جیسے اس کے بچے کھچے پر نوچ لئے گئے ہیں، مجھے دیکھ کر وہ چند لمحے کے لیے رُکا، بجٹ پیش ہونے سے قبل بھی وہ مجھے دیکھ کرکبھی کبھار رک جاتا اور گردن اٹھاکر، سینے کے پرپھُلاکر زور دار آواز میں ککڑوں کڑوں کی آواز نکال کر، مجھے اپنے انداز میں سلام کرتا، بجٹ پیش ہونے کے بعد بھی اُس نے رُک کر اپنی روایت برقرار رکھنے کی کوشش کی، میں اُسے رک کر بغوردیکھ رہا تھا، بے بال و پر مرغ نے سینے کا تمام زور اکٹھا کرکے ککڑوں تو کیا لیکن وہ کڑوں نہ کرسکا، کڑوں کرنے کی کوشش میں اس کی چوں نکل گئی، مجھے زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ یہ چوںاُس کی چونچ کے راستے نہیں ہوئی بلکہ پونچھ کے راستے ہوئی، مجھے مزید افسوس اِس بات کا تھا کہ اگر مرغ کے جسم پر پورا لباس ہوتا تو اُس کی چوں مجھ تک نہ پہنچتی،

مرغ دیسی ہو یا ولایتی، وہ زیرجامہ نہیں پہنتا، بس ویسے ہی بھاگا پھرتا ہے، مرغیاں بھی اس بات کو مائنڈ نہیں کرتیں کیونکہ ان کے یہاں بھی جسم کا بالائی حصہ ہی ڈھانپا جاتا ہے، مرغوں اور انسانوں میں یہی فرق ہے کہ وہ زیر جامہ ضرور پہنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ منہ زور مہنگائی کے سبب چوں تو اُن کی بھی نکل گئی ہے، لیکن آس پاس کسی کو پتا نہیں چلا، ملک بھر میں صرف ایک طبقہ ہے، جس پر کسی بھی دور میں مہنگائی کا کوئی اثر نہیں ہوتا، کئی برسوں میں کئی بجٹ آئے، کئی بیت گئے،

انہیں روٹی ایک روپے، چائے دو روپے، بریانی، چکن، بیف پانچ روپے، مٹن دس روپے، سویٹ دس روپے، کولڈ ڈرنک جوس پانچ روپے میں دستیاب ہے، ان کی تنخواہیں لاکھوں روپے، ایئر کنڈیشنڈ رہائش فری، پٹرول مفت، جہاز کے ٹکٹ مفت، موبائل فون کا بل نہ ہونے کے برابر، ملازمتوں میں کوٹے،بیرونی دورے ان کا استحقاق اور سرکاری خرچ پرسکیورٹی گارڈز کے جتھے ہر وقت حاضررہتے ہیں، جہاں سے یہ گذریں ٹریفک رک جاتا ہے، ایمبولینس میں مریض مرجائے، کوئی کسی مجبوری کے سبب قدم آگے بڑھادے یا راستہ دینے میں تاخیر کردے تو لگژری گاڑی کے ٹائروں تلے کچلا جاسکتا ہے، یا محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ واپڈا کے کئی لاکھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین وافسران کئی ارب روپے کی بجلی مفت استعمال کررہے ہیں۔ سوئی گیس کے محکمے میں بھی یہی کلچر ہے، کئی ارب روپے کی گیس کے بدل ایک روپیہ وصول نہیںکیا جارہا۔

ہر نیا ٹیکس بلکہ ٹیکس در ٹیکس عام آدمی کا مقدر ٹھہرا، ہر بجٹ کے موقعہ پر نہایت ڈھٹائی سے کہاجاتا ہے کہ سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، کہتے ہیںکوئی قانون موثر بہ ماضی نہیں بن سکتا، نیب قوانین میں تبدیلی کے مطابق یہ تبدیلیاں 1985ء سے لاگو ہوں گی، یہ قانون کیوں نہیں بن سکتا کہ گذشتہ تیس برسوں میں کئی ہزار ارب روپے کے قرض معاف کرانے والوں سے یہ قرض معہ سود واپس لیے جائیں۔ جنہیں وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں میں کئی کئی کنال کے دو دو پلاٹ لٹائے گئے وہ واپس کیے جائیں، یہ وہ لوگ تھے جو لاکھوںروپے تنخواہ لیتے تھے، غریب مسکین نہ تھے، انہی کے بچوںکو غیر ملکی تعلیمی وظائف کی بارش میں نہانے کا موقعہ ملا، انہی میں سے بیشتر کی بیگمات غیر ملکی این جی اوز کی کرتا دھرتا بن کر دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹتی نظر آئیں، سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد جو اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور سکینڈے نیوین ممالک کی شہریت حاصل کرچکے ہیں،

ملک کا پیسہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر غیر ملکی اکائونٹس میں منتقل کرچکے ہیں، ملازمت کے آخری برس انہی ممالک میں پوسٹنگ حاصل کرنا انہی کا حق ٹھہرا۔ حیرت کی بات ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے کبھی حکمران اشرافیہ کی مراعات اور پنشن کے نام پر ایک اور لوٹ مار ختم کرنے کی کبھی بات نہیں کی، تواتر کے ساتھ سخت فیصلوں کی گردان کرنے والوں نے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار نہ کیا اور عام آدمی کو فوری ریلیف نہ دیا تو بھوکے ننگے عوام سڑکوں پر آنے اور جس کھیت سے روزی میسر نہ ہو، اس کے ہر خوشۂ گندم کو جلانے کے لیے تیار ہوچکے ہیں، نشانہ وہ ہوں گے جن کے بارے میں جناب وزیراعظم برس ہا برس قبل پیش گوئیاں کرچکے ہیں، مرغے کی توچوں نکل گئی، حکمران اشرافیہ کی چوں بھی نہ نکلے گی ، کچھ اور ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button