ColumnRuby

تحریک انصاف میں قیادت کا فقدان .. روبی رزاق

روبی رزاق

پا کستان کی سیاست میں پنجاب کی سیاست انتہائی اہمیت کی حامل ہے، سب سے بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے زیادہ توقعات بھی سیاستدان اسی صوبے سے وابستہ کرتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف میں نئی تنظیم سازی کا عمل مکمل ہوگیا ہے  اور پارٹی کا کردار بھی اب بدل چکا ہے، پہلے پارٹی پاور میں تھی مگر اب اپوزیشن میں ہے چونکہ پوزیشن میں آتے ہی تنظیمی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپوزیشن سے نکل کر اقتدار میں آیا جائے۔  سیاسی جماعتوں کے اندر اس قسم کی تبدیلیاں باعث حیرت نہیںہوتیں۔ لانگ مارچ اور شارٹ مارچ کی کامیابی کا دارو مدار بنیادی طور پر عمران خان پر ہے، عمران خان کال دیں تو عوام اپنا ردعمل دیتی ہے، اس کے بعد عمران خان کی ماتحت قیادت آتی ہے جسے پڑھے لکھے طبقے کو موبلائز کرنا ہوگاوگرنہ پی ٹی آئی کے آزادی مارچ جیسی صورتحال دوبارہ بن سکتی ہے۔حکومت کے خلاف مارچ یا دھرنا یا ایسی کسی دوسری جمہوری سرگرمیوں کی کامیابی کا دارومدار لیڈر کی کال پر لبیک کہنے والوں کی تعداد اور پھر اُنہیں گھروں سے نکالنے والوں پر منحصر ہوتا ہے۔ لیڈر کی کال میں جان اورتڑپ ہوگی تو لوگ باہر نکلنے کا سوچیں گے اور پھر ذیلی قیادت کا کام ہے کہ وہ لبیک کہنے والوں کو گھروں سے کیسے باہر نکالتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنمااسد عمر، ڈاکٹر یاسمین راشد اور حماد اظہر پارٹی کے ہارڈ کور سٹف ہیں، خسرو بختیار کے ماضی کا ریکارڈ سامنے رکھیں تو وہ موسم دیکھ کر ’’اڈاری‘‘بھرنے والوں میں سے ہیں اور ہمیشہ سخت حالات کا سامنا کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ عامر کیانی وفاقی وزیر تھے اور ادویات سکینڈل کی صورت میں سامنے آئے۔ دراصل سیاسی جماعتوں کو تنظیم سازی اس وقت یاد آتی ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہیں، تبھی انہیں ورکروں اور کارکنوں کی یاد ستاتی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کا کردار اب بدل چکا ہے، اب وہ پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اور دراصل اب تحریک انصاف کا حقیقت میں امتحان شروع ہوچکا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنے اندر کیا اصلاحات لاتی ہے کیوں کہ سیاسی جماعتوں میں ایسی تبدیلیاں باعث حیرت نہیں ہوتیں بلکہ ایک قسم کا ٹیسٹ ہوتا ہے اس قسم کی صورت حال جس میں لانگ مارچ شارٹ مارچ متوقع ہوتے ہیں اور جیسی صورتحال مئی میں بنی ایسی دوبارہ بھی بن سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک سیٹ اپ کے بعد دوسرا سیٹ اپ اور ایک کے بعد دوسری لیڈر شپ کو سامنے لاکر دیکھا جاتا ہے کہ وہ کیسی پرفارمنس دیتی ہے کیونکہ کامیابی کا مکمل انحصار لیڈر شپ کی پرفارمنس پر ہوتا ہے، بلاشبہ سارے کام چیئرمین عمران خان نے نہیں کرنے، انہوںنے عوام کو کال دینی ہے لیکن متحرک تو ذیلی قیادت نے کرنا ہے جنہوں نے عوام کو متحرک کرکے باہر نکالنا ہے اور انہیں حکومتی ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیے سدرن پنجاب کو درپیش چیلنجز، سنٹرل اور ناردرن پنجاب سے مختلف ہیں اور دراصل پنجاب کے اندر ایسی لیڈرشپ چاہیے جو لوگوں کو متحرک کرکے گھروں سے باہر لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو، جو پڑھے لکھے بلکہ ہر طبقے میں جڑیں رکھتی ہو اور لوگ اُن کی کال پر کان بھی دھرتے ہوںیہی نہیں قیادت میں یہ خصوصیت بھی لازماً ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی معرکے میں سب سے آگے نظرآئے بجائے اِس کے کہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں چھپ کر حکومت اور ریاستی اداروں کو بددعائیں دینے پر ہی اکتفا کرے۔

عمران خان کے آزادی مارچ کی ناکامی کا بڑا سبب پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت کو سمجھا جارہا ہے کہ شفقت محمود کو پنجاب کی صدارت سونپی گئی تو ان کے بارے میں پارٹی میں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ وہ پارٹی ورکروں اور کارکنوں کو کبھی بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتے اور رفتہ رفتہ وہ لوگ بھی اِس رائے سے متفق نظر آئے جو پہلے اُن سے اختلاف کرتے تھے یہی نہیں پارٹی ورکرز برملا کہتے پائے جاتے ہیں کہ شفقت محمودخود پسند شخصیت ہیں اور انہوں نے جیسی ہی پارٹیٰ کی صدارت کا منصب سنبھالا اس کے فوری بعد پنجاب سیکرٹیریٹ کو تالہ لگادیا گیا اور بارہ سے زائد غریب اور وفادار ملازمین کو بھی فارغ کردیا ۔

یوں پنجاب کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ پارٹی سیکرٹیریٹ ہی بند کردیا جائے جب شفقت محمود نے یہ اقدام کیا تو اس کے بعد پارٹی ورکروں اور کارکنوںکے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ رہی اور وہ دربدر ہوگئے وزیراعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس کے دروازے پہلے ہی ان کے لیے بند کردیئے گئے تھے حالانکہ اس سے قبل پی ٹی آئی پنجاب کی صدارت اعجاز چودھری کے پاس رہی تو انہوں نے بہت منظم طریقے سے اپنے فرائض ادا کئے اور اپنی جیب سے خرچ بھی کرتے رہے ۔ انہوں نے ورکروں اور کارکنوں کو اپنا بازو بنائے رکھا ان کی غمی خوشی میں شریک ہوتے رہے ۔ پی ٹی آئی پنجاب کی صدارت علیم خان کو ملی تو ورکروں اور کارکنوں کی بھی چاندی ہوگئی ۔وہ نہ صرف کلمہ چوک کے پاس واقع سیکرٹیریٹ کا ماہانہ دس لاکھ کرایہ اپنی جیب سے ادا کرتے رہے بلکہ جلسے جلوسوں اور پارٹی سیکرٹیریٹ کے سٹاف کی تنخواہوں کے علاوہ دیگر تمام تر اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے رہے مگر ان دونوں شخصیات کی برعکس شفقت محمود تالہ بندی کے لیے متحرک رہے۔جہاں تک نئی صدر یاسمین راشد کی بات ہے تو ان کی الیکشن مہم پر بھی علیم خان نے ہی تمام اخراجات کئے اور ایسا علیم خان کا دعویٰ ہے۔

یاسمین راشد کچھ عرصہ قبل ہی کینسر جیسے موذی مرض سے صحت یاب ہوئی ہیں۔ میاں حماد اظہراورڈاکٹر یاسمین راشد کی نامزدگی کا عمل مئوثر اقدام معلوم ہوتاہے لیکن یہ تنظیم سازی کس حد تک کامیاب ہوگی، آنے والے چند ہفتوں میں سامنے آجائے گا کہ وہ عمران خان کی کال پر لوگوں کو کیسے موبلائز کرتے ہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری حماد اظہر کو جو عہدہ ملاہے وہ ماضی میں جہانگیر ترین کے پاس بھی تھا ان کے والد میاں اظہر مختلف پارٹیوں سے وابستہ رہے ہیں لیکن حماد اظہر نے اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز پی ٹی آئی سے ہی شروع کیا ہے اِس لیے اب دونوں رہنمائوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، صوبائی دارالحکومت چیئرمین عمران خان کا بھی ہوم ٹائون ہے اِس لیے عمران خان کی کال پر اُن کے آبائی شہر سے لوگوں کو باہر نکالنا بہت بڑا چیلنج ہوگا اور اب ڈاکٹر یاسمین راشد اور میاں حماد اظہر کو اپنی صلاحیتوں سے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ قیادت کا بہترین انتخاب ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button