دیوارِ برلن سے دیوارِ عمران تک .. احمد نوید

احمد نوید
دیوار برلن کو جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک نے سرد جنگ کے دوران تعمیر کیا تھا تاکہ اس کی آبادی کو سوویت کے زیر کنٹرول مشرقی برلن سے مغربی برلن جانے سے روکا جا سکے ، جس پر طاقتور مغربی اتحادیوں پر مشتمل ممالک کا کنٹرول تھا۔ لہٰذا اس دیوار کی تعمیر نے برلن شہر کو نظریاتی اور علاقائی طور پر دو مختلف اور متضاد علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاست نے بھی پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ جرمنی میں دیوار برلن تھی ، پاکستان میں دیوار عمران ہے ۔ دیوار برلن کی طرح آج پاکستان بھی دو متضاد سوچوں میں تقسیم ہو چکا ہے ، دیوار کے ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کے خیر خواہ اور سپورٹرز ہیں جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی نے دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو دھکیل دیا ہے ، جو اُس کی مخالف ہیں ۔ دیوار برلن کو پار کر نا آسان نہیں تھا۔ دیوار عمران کو بھی پار کرنا آسان نہیں ہے ۔
دیوار برلن کی دو اہم رکاوٹوں کے درمیان میں ریت اور بجری سے ڈھکی ہوئی زمین کی ایک پٹی تھی، جسے موت کی پٹی کہا جاتاتھا۔ اس پٹی یا زمین کے اس ٹکڑے کو عبور کرنا مشکل تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ حصے دیوار برلن پر مسلسل نظر رکھنے والے واچ ٹاورز میں پہرہ دیتے محافظوں کی مسلسل نگرانی میں رہتے تھے ۔
یہاں سے جب بھی کوئی دیوار عبور کرنے کی کوشش کرتا تو محافظ فرار ہو نے والے شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دیتے تھے۔ دیوار عمران کو عبور کرنے والے افرادیا سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ جو سیاسی شخصیت ، جو سیاسی پارٹی ، کوئی جج ، سلیبرٹی ، کھلاڑی ، یا فنکار ، سرکار ی آفیسر، آرمی آفیسر یا پولیس کے شعبے سے وابستہ شخص پاکستان تحریک انصاف یا عمران خان کے لیے نیک، دوستانہ یا خیر خواہی کے جذبات رکھتا ہے ۔ وہ امان میں ہے ،اُس کی زندگی ، اُس کی عزت ، ناموس، احترام اور سیاسی ساکھ کو کچھ نہیں کہاجائے گا۔ اُسے نہ ڈرایا نہ دھمکایا جائے گا۔ تاہم اِن افراد یا سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی بھی جیسے ہی دیوارِ عمران کو پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے، تو پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے واچ ٹاورز پر بیٹھے محافظ اُسے اپنے حملے کی زد میں لے لیتے ہیں ۔ وہ شخص ، سیاسی جماعت یا سرکاری ادارہ مشکوک یا کبھی کبھار غدار تک قرار دے دیا جاتا ہے ۔
دیوار برلن کی دو اہم رکاوٹوں کے درمیان میں وہ زمین کا ٹکڑا موت کی پٹی کہلاتا تھا۔ دیوار عمران کی اہم رکاوٹوں کے درمیان میں ضمیر کا ٹکڑا ، ضمیر کی پٹی کہلاتا ہے ، دیوار برلن کو عبور کرنے والے جان سے جاتے تھے ۔ دیوار عمران کو عبور کرنے والے عزت سے جاتے ہیں اور کچھ معاملات میں اب اُنہیں جان سے جانے کا خطرہ بھی مول لینا پڑ سکتا ہے ۔
دیوار برلن صرف ایک دیوار نہیں تھی بلکہ رکاوٹوں کا ایک نظام تھا، جس میں دو مضبوط اونچی دیوار یں بھرپور رکاوٹوں اور پہرے داروں کے ساتھ کھڑی تھیں ۔ دیوار کے اوپر برقی باڑ ، خار دار تاریں، واچ ٹاورز، بندوق بردار محافظوں کے لیے مورچے اور بارودی سرنگوں سے دیوار کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا تھا۔ دیوار عمران کی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے قلعہ بندی کا نظام بھی تمام پاکستان میں پھیلایا گیا ہے اور پورے پاکستان کے سیاسی نظام پر نظر جمائے ہوئے ہے ۔ دیوار عمران کی تخلیق اور تعمیر حادثاتی نہیں ، جیسے اِسے بنانے میں کئی سال لگے ہیں ویسے ہی دیوار عمران کے اُس طرف رہنے والوں کی اشتعال انگیز سوچ اور شدت پسندی بھی چند دنوں، ہفتوںیامہینوں نہیں بلکہ سالوں کی پیداوار ہے ۔
دیوار عمران کی ناکہ بندی اور اس کے واچ ٹاورزپر موجود شدت پسند پہرے داروں کا دیوار عمران پر مکمل غلبہ ہے ، چونکہ یہ ایک مقد س دیوار ہے لہٰذا اسے گرانے یا عبور کرنے والے وطن کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ۔ اس دیوار کے سپہ سالار جو عمران خان ہیں، اُن کے بقول غلامی ہمارے تمام فسادات کی جڑ ہے ۔ اس لیے وہ دیوار کے دائیں بائیں رہنے والوں کو غلامی سے آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ اس غلامی سے قبل وہ آئی ایم ایف ، کرپشن ، پولیس کے بوسیدہ نظام ، بے روزگاری ، خراب معیشت ، بیرونی قرضوں سمیت دیگر بہت سے مسائل کو فسادات کی جڑ قرار دیتے رہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دیوار عمران کے سپہ سالار عمران خان صاحب کو جب دیوار کے دائیں اور بائیں تمام علاقے پر حکومت کرنے کا موقعہ ملا ۔ تب بھی وہ اِن تمام مسائل کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ۔ انہوں نے اب تک کی تمام حکومتوں سے تین گنا زیادہ قرضے لیے ۔ آئی ایم ایف کوبھی دل ہی نہیں بلکہ جان سے لگایا ۔ آئی ایم ایف کے نمائندے کو سٹیٹ بنک آف پاکستان میں لا بٹھایا ۔ آج آزادی مانگنے والوں کی خارجہ پالیسی تب بھی آزاد نہیں تھی۔ اس دور حکومت میں بھی پولیس میں اصلاحات نہیں لائی گئیں ۔ لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے بجائے تیس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بے روزگار ہو گئے ۔ تعلیمی بجٹ کم کردیا گیا۔ یونیورسٹیوں کی گرانٹس روک دی گئیں ۔ بیڈ گورننس کی بھی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ۔
دیوار عمران والوں کی حکومت ختم ہوئی ۔ تلخیاں مزید بڑھ گئیں ۔ نفرتوں کے پودوں کو خوب پانی لگایا گیا، جس پر اب شدت پسندی کا پھل بالکل تیار ہے اور پک چکا ہے ۔ دھمکیاں بھی سنائی دے رہی ہیں ۔ دھونس اور زبردستی مدد مانگی جارہی ہے ۔ ایک ایک لفظ کا صاف مطلب ہے کہ اقتدار پر دوبارہ بٹھایا جائے۔ نوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستان کے تین ٹکڑوں کی بات کی جانے لگی ہے اور فوج کی تباہی کی ۔
13اگست 1961میں کنکریٹ سے بنائی جانے والی دیوار برلن 9نومبر 1989تک قائم رہی۔ دیوار برلن آج بھی سرد جنگ کی سب سے طاقتور علامتوں میں ایک جانی جاتی ہے ۔ اب سوال عمران خان صاحب سے ہے کہ اقتدار کے چلے جانے پر اعصابی تنائو کو اس قدر سر پر سوار نہیں کر لینا چاہیے کہ آپ کو دل و دماغ اور زبان پر بھی اختیار نہ رہے ۔ جس رات جرمنی کی دیوار برلن کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ لوگ خوشی سے دیوار کی طرف لپکے ، وہ سب ’’Tor auf‘‘گیٹ کھولو کے نعرے لگار ہے تھے
خان صاحب اور خان صاحب کی دیوار عمران کی حفاظت پر معمور محافظوں سے درخواست ہے کہ اپنے مخالفین اور پی ٹی آئی سے اختلاف رکھنے والوں سے اتنی شدت سے پیش مت آئیں کہ اُن کا دم گھٹنے لگے اور وہ لوگ اِن گالیوں اور دھمکیوں سے تنگ آکر اُسے مسمار کرنے کا سوچنے پر مجبور ہو جائیں ، اگر ایسا ہوا تو وہ پکار اُٹھیں گے۔گیٹ کھولو، عمرانی دیوار کو مسمار کرو۔