تازہ ترینخبریںپاکستان

اتنی جلدی کیا تھی حکومت کو کہ 444 نام ای سی ایل سے نکال دیئے

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اتنی جلدی کیا تھی حکومت کو کہ 444 نام ای سی ایل سے نکال دیئے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی وزیر کا نام ای سی ایل میں تھا؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خواجہ سعد رفیق کا نام ای سی ایل میں تھا جو نکال دیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک شخص جس کا نام ای سی ایل میں ہے وہ وزیر بن جاتا ہے تو کیا ہوگا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 22 اپریل کو سب کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں رولز میں ترمیم کی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سب کمیٹی کے بعد کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس بارے میں معلومات لے کر آگاہ کرتا ہوں، ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کیے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب کو ضرورت ہو تو نام دوبارہ شامل کرنے کے لیے رجوع کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا نیب کو نام نکالنے کا پتہ ہوگا تو ہی رجوع کرسکے گا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق سعد رفیق نے ای سی ایل رولز کی منظوری دی ہے، کیا وزراء کو خود معاملے سے الگ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ذاتی مفاد کیلئے کوئی کیسے سرکاری فیصلے کرسکتا ہے؟

عدالت نے ای سی ایل ترمیم کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے، ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ ایگزیکیٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے، نام نہیں لیتے لیکن ایک وزیر جن کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا وہ اہم معاشی امور سرانجام دے رہا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ای سی ایل ترمیم کا گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ کس نے کیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نام نکالنے اور گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ سب کمیٹی کی سفارشات پر ہوا۔

ڈی جی لاء ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ 8 افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے فہرست میں تاریخیں درست انداز میں نہیں لکھی گئیں، ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹر کہے کہ ریکارڈ نہیں مل رہا تو تکلیف ہوتی ہے، نیب کے مقدمات میں ایسا ماضی میں ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، ایسا نہ ہو کہ مواد موجود ہو اور گواہان کو خاموش کروا دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا نیب کے جن مقدمات میں شواہد نہیں ہیں انہیں واپس لے، پراسیکیوشن کے درست کام نہ کرنے سے نظام انصاف پر برا اثر پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد 30 لوگ بیرون ملک گئے، باہر جانے والے 23 لوگ واپس آگئے،7 واپس نہیں آئے، شرجیل انعام میمن بھی واپس نہیں آئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ گم ہوجائے تو گواہوں کو خاموش کرادیا جائے، یہ نہیں ہونا چاہیے، کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں۔

انہوں  نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سول سرونٹ ہیں، کسی کی مداخلت تسلیم نہ کریں، اگر کوئی دباؤ ڈالتا ہے تو عدالت کو بتائیں، آپ کو تحفظ فراہم کیا جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button