ColumnZia Tanoliتازہ ترینخبریں
سیاسی دیگ! ….. ضیا تنولی
ضیا تنولی
ان دنوں یہ بحث زوروںپر ہے کہ تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے بعد کس نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔غیر جانبدار سیاسی حلقے اس بحث کو آسان الفاظ میں اس طرح سمیٹ رہے ہیںکہ سیاست میں بادشاہ گر سمجھے جانے والے آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی نے بہت کچھ پا لیا ہے اور اس کے پاس سیاسی طور پر جو کچھ موجود ہے اسے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس کے لیے بہت سے دلائل بھی دئیے گئے ہیں جو سمجھ میں آنے والے ہیں۔ دوسری جانب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وفاق میں بظاہر درجن کے قریب جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے لیکن اس کا سارا بوجھ تن تنہا مسلم لیگ نون کے کندھوں پر آن پڑاہے، جس کا بر ملا اظہار وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے بھی کیا ہے بلکہ ایک سینئر اور سنجیدہ سیاسی رہنما کا بھی یہ کہنا ہے کہ بظاہر ہم نے عصر کے وقت روزہ توڑ اہے جس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ جس نا اہلی ،بد ترین کارکردگی ،معیشت کی زبوں حالی کا جواب عمران خان اور ان کی جماعت نے دینا تھا وہ اب مسلم لیگ نون کو دینا پڑ رہا ہے
کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی کی صورت میں تباہی پھیلائی تھی ایسے میں عوام یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ مسلم لیگ نون تجربہ کار ہونے کے ناطے انہیں فوری ریلیف دے گی لیکن حالات یکسر اس سے مختلف ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاق میں اچھے عہدے بھی لے لیے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کے معاہدے کی بھی باز گشت ہے جس کے نتیجے میں اسے قومی اور پنجاب اسمبلی کی نشستیں ملیں گی جبکہ ابھی تک سندھ میں اس کی سیاسی پوزیشن کو تحریک انصاف یا مسلم لیگ نون سمیت کسی جماعت سے کوئی بڑا خطرہ بھی نہیں اور اگر وہ سندھ میں تنہا حکومت سازی نہ بھی کرسکی تو اتحادیوں کے ساتھ مل کر سندھ میں دوبارہ حکومت ضرور بنالے گی کیوں کہ تحریک انصاف نے ابھی تک سندھ کی طرف اس طرح سفر شروع نہیں کیا جس طرح پنجاب میں مہم جوئی کی گئی ہے اسی طرح مسلم لیگ نون کی بھی سیاسی طور پر سندھ پر اس طرح توجہ نہیں جس طرح ایک قومی جماعت کی ہونی چاہیے اور وہ سیاسی
حریف کے طور پر مستقبل میں سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے خطرہ بن سکے۔
جب تک آئی ایم ایف سے امور طے نہیں پا جاتے اور خالی خزانے کا کچھ پیٹ نہیں بھر تا ، اس وقت تک وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اپنی انتظامی اور خداداد صلاحیتوں کے باوجود بلند پرواز نہیں کرسکیں گے ۔ وزیراعظم اور اُن کی کابینہ لندن یاترا کے بعد وطن واپس آنا شروع ہوگئے ہیں لیکن وہاں قیادت کے سامنے حلف اٹھاکر آئے ہیں کہ وہ لندن مشاورت کے متعلق لب کشائی نہیں کریں گے تاہم ایک عام فہم ذہن بھی بخوبی بتا سکتا ہے کہ اِس وقت موجودہ حکومت کو کتنے گیند پر کتنے سکورز کرنا درکار ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں افواہوں کا بازار گرم ہے کہ آئندہ ایک ہفتے میں اگر معاشی مسائل حل کرنے کا کوئی حتمی حل سامنے نہ آسکا تو اسمبلیاں تحلیل کرکے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جاسکتا ہے اور نگران سیٹ اپ میں ایک مشہور شہید جرنیل کے فرزند کو اہم ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے،
کیوں کہ بصورت دیگر کوئی چارہ نظر نہیں آتا ، اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کو کم وقت میں مشکل ترین ہدف ملا ہے بلکہ حالات پہلے سے زیادہ کٹھن ہوچکے ہیں کیونکہ سیاسی عدم استحکام کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور عمران خان بھی موجودہ حکومت کو درپیش معاشی مسائل کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا دباﺅ بڑھارہے ہیں تاکہ جلد ازجلد انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں وہ اپنے متعلق رائے عامہ کا بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔ ایک طرف مرکز میں مسلم لیگ نون کی حکومت مسائل در مسائل کا شکار ہے تو دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی کابینہ کی تشکیل بھی میاں محمد نواز شریف اپنے ہاتھ میں لیکر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ درحقیقت پارٹی میں اُنہی کا بیانیہ چلتا ہے خواہ مرکز ہو یا پنجاب اُن کی مرضی کے بغیر کوئی تقرر و تبادلہ نہیں ہوسکتا اِس کی واضح مثال چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی میاں محمد نوازشریف سے لندن میں ملاقات ہے جس کے متعلق عام قیاس یہی تھا کہ میاں محمد شہبازشریف نے اُنہیں وزارت خارجہ کا قلم دان لینے کے لیے لندن کی راہ دکھائی تھی،
اِس لیے کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ مسلم لیگ نون میں اب بھی میاں محمد نوازشریف کا بیانیہ چلتا ہے۔ ٹی وی اینکر حامد میر نے انٹرویو کے دوران میاں نواز شریف سے سوال کیا کہ آپ کا سیاسی وارث کون ہے؟ اِس کا جواب اگرچہ انہوںنے حمزہ شہبازکا نام لیکر دیا لیکن اِس انٹرویو کے چند ہفتوں کے بعد ہی مسلم لیگ نون کی سیاسی وراثت محترمہ مریم نواز کے نام منتقل کردی گئی اِس لیے ہمیں قطعی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ مسلم لیگ نون میں ایک سے زائد بیانیے چل رہے ہیں اِس لیے حالات چاہے کیسے بھی ہوں، درحقیقت مسلم لیگ نون میں میاں نوازشریف کا ہی بیانیہ چل رہا ہے اِس لیے ہمیں ان تاریخی لائنوں کو بھولنا نہیں چاہیے، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
دشمن نہ کرے دوست نے جو کام کیا ہے
عمر بھر کا غم ہمیں انعام دیا ہے،
”مرد ِ آہن“آصف علی زرداری نے اِس بار مسلم لیگ نون کے ساتھ جو گیم کی ہے، یقیناً اُنہیں بجا طور پر مرد آہن کہا جاتا ہے، اُنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر ”سبھی“ کو قائل کیا اور کامیابی سے پہلے ہی وزیراعظم کے لیے میاں محمد شہبازشریف کا نام تجویز کردیا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ موجودہ معاشی اور متوقع سیاسی بحران سے اِس انتہائی قلیل مدت میں نمٹنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا انہوں نے قانون سازی سے متعلق نشستیں اپنی پارٹی کے لیے حاصل کرلیں اور حکومت چلانے اور سابق وزیراعظم کے سیاسی دباﺅ سے نمٹنے کے لیے میاں محمد شہبازشریف کی صورت میں مسلم لیگ نون کو آگے کردیا،
اسی لیے شاید مسلم لیگ نون کو بھی ادراک ہوچکا کہ ”مرد آہن“نے نہ صرف اُنہیں استعمال کرکے عمران خان کو ہٹایا بلکہ معاشی بحران میں پھنسا کر 2023ءکے انتخابات میں کامیابی بھی اُس کے لیے مشکل بنادی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اسمبلیاں تحلیل کرنے کے سوا کوئی محفوظ راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری طرف ہماری چھٹی حس اور موکل کہتے ہیں کہ اگلے ماہ تک پاکستان تحریک انصاف کی بہت سی مشکلات دور ہونے والی ہیں۔ بہرحال کسی نے درست کہا ہے کہ دیگ کے چاول آج کے نئے برتنوں میں دیر سے پکتے ہیں لیکن پھر پکنے کے بعد ٹھنڈے بھی جلد ہوجاتے ہیں اِس لیے جس جلد بازی میں یہ سب کچھ ہوا ہے ، اتنی ہی جلد یہ ٹھنڈا ہوتا نظر آرہا ہے۔