تازہ ترینخبریںخواتین

شامی خاتون کا 25 سال سے ترکی میں پابند سلاسل ہونے کا انکشاف

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر ایک شامی خاندان نے انکشاف کیا ہے کہ خاندان کی ایک خاتون گذشتہ پچیس سال سے ترکی میں پابند سلاسل ہے۔انہوں نے انسانی حقوق اور خواتین سے متعلقہ اداروں سے اپنی بیٹی فاطمہ رشاد سیدو کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ فاطمہ اور اس کے خاندان کا تعلق شام کے علاقے کوبانی کے دیہی علاقے سے ہے جسے عین العرب بھی کہا جاتا ہے یہ شامی صوبے حلب کے شمال میں واقع ہے۔

فاطمہ جس کے پاس شام کی شہریت ہے 1969 میں پیدا ہوئیں۔ وہ اس وقت ترکی کے ازمیر شہر میں واقع ایک جیل میں قید ہیں۔انہیں 14 مئی 1997 کو ترکی کی سرحد پر واقع عراقی علاقے سے حراست میں لیا گیا تھا۔ پھر ترکی کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ فاطمہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ ترک حکام نے اس پر "دہشت گردی” اور کردستان ورکرز پارٹی جس پر انقرہ میں پابندی عاید ہے کی رکنیت کا الزام ہے۔

اس تناظر میں فاطمہ کے بھائی احمد سیدو نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا کہ ترک حکام ہمیں ہماری بہن سے ملنے سے روکتے ہیں۔اسے صرف چند منٹوں کے لیے فون پر، وائس کالز کے ذریعے ہم سے بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کال کے دوران اس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ فاطمہ کو اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔اسے ملاقات نہیں کرنے دی جاتی اور وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہاں تک کہ ترکی کی عدلیہ نے ہمیں اس کے کیس کے اخراجات بھی ادا کرنے کا پابند بنایا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے اہل خانہ کئی سالوں سے فاطمہ سے نہیں مل سکے اور اس لیے ہم فی الحال اس کے ساتھ ویڈیو کال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میری بہن نے طویل عرصہ قید تنہائی میں گزارا۔ حقوق کی خلاف ورزی کے باوجود اس کا مقدمہ سال 2021 میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت تک پہنچا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ترک حکام نے مجھے میری بہن سے ملنے کی اجازت دی تو ہم اسے شیشے کے پیچھے سے دیکھ سکتے تھے۔ ہمیں اس کے قریب جانے اور اس سے آمنے سامنے ملنے کی اجازت نہیں تھی سوائے اس کے کہ جب تعطیلات کے دوران ملاقاتیں کی جائیں۔

سیدو کے مطابق جیل حکام جس میں فاطمہ اپنی سزا کاٹ رہی ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ ترکی کا قانون اسے اپنے اہل خانہ سے ہفتہ وار بات چیت کا حق دیتا ہے اس کے باوجود اسے ہر ہفتے ایک کال کرنے کی اجازت ہے۔ 20 منٹ کے بجائے صرف 10 منٹ کی بات کراتے ہیں۔ اس دوران بھی کئی بار تکنیکی خرابی کے باعث کال کاٹ دی جاتی ہے۔

فاطمہ کے بھائی نے خواتین کے حقوق سے وابستہ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس کی بہن کی رہائی کے لیے مداخلت کریں جو ترکی کے ساحلی شہر ازمیر میں واقع شکران علی آغا جیل میں اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔ وہ اس سے قبل کئی جیلوں میں قید کاٹ چکی ہیں۔

بشکریہ العربیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button