تازہ ترینخبریںپاکستان

توہینِ مذہب کے نام پر تشدد میں ملوث 90 فیصد افراد کی عمر 18 سے 30 سال

سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ توہینِ مذہب کے نام پر تشدد میں ملوث 90 فیصد افراد کی عمر 18 سے 30 سال کے درمیان ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی سربراہی میں ہوا جس میں سیکریٹری وزارت انسانی حقوق اور پولیس حکام نے اراکین کو بریفنگ دی۔

کمیٹی نے توہین مذہب کے نام پر پیش آنے والے واقعات پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی جانب سے اس طرح کا رد عمل آنا باعث تشویش ہے۔

سیکریٹری انسانی حقوق نے کمیٹی سیالکوٹ واقعے میں ملوث 90 فیصد ملزمان کی عمر 18 سال سے شروع ہو رہی تھی۔

اس کے علاوہ میاں چنوں میں توہین مذہب کے الزام پر ذہنی بیمار شخص کے ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے بعد قتل کے معاملے پرپنجاب پولیس نے سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دی۔

ڈی پی او خانیوال نے کمیٹی کو بتایا کہ میاں چنوں میں توہین مذہب کے الزام میں جس شخص کا قتل ہوا اسے مارنے کا اعلان امام مسجد نے کیا، مقتول پر قرآن پاک کی بیحرمتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ جو شخص قتل کیا گیا اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، اس شخص پر لگے توہین مذہب کے الزام کا کوئی گواہ بھی نہیں، کسی نے بھی اس شخص کو قرآن کے اوراق کو آگ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ڈی پی او نے مزید بتایا کہ جائے وقوع پر 15 پولیس اہلکار پہنچےاور اس شخص کو بچانے کی کوشش کی، اس دوران پولیس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ وڈیوز میں جو لوگ دیکھے جا سکتے ہیں انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے، 300 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ واقعے میں ملوث 130 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 3 کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔

ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب آپریشنز نے کمیٹی کو بتایا کہ پنجاب میں سال 2017 سے 2022 تک مبینہ توہین مذہب کے 345 واقعات پیش آچکے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ رواں سال کے ابتدائی 2 ماہ کے دوران توہین مذہب کے 14، سال 2021 میں 77 واقعات پیش آئے، سال 2020 میں 83 ، سال 2019 میں 56 واقعات پیش آئے، سال 2018 میں 68 جبکہ سال 2017 میں 47 واقعات پیش آئے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ توہی مذہب کے یہ تمام واقعات صرف پنجاب میں پیش آئے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کا مائنڈ سیٹ مکمل تبدیل ہو چکا ہے، ان کے ذہن پر سوشل میڈیا کا کافی حد تک اثرا ہوا ہے، نوجوانوں میں برداشت پیدا اور ان کا ذہن تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button