تازہ ترینجرم کہانیخبریں

سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ یہ فیصلہ 24 فروری کو سنایا جائے گا۔عدالت نے تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پرفیصلہ محفوظ کیا۔

اسلام آباد کی سیشن عدالت میں نورمقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت کو مدعی کےوکیل نثار اصغر نے بتایا کہ ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس کوئی ثبوت نہیں،والدین خود مانتے ہیں کراچی سے آئے، تین دفعہ تھانے گئے، پولیس کو لائسنس دیا اور پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔

مدعی وکیل نے بتایا کہ سی ڈی آر اور ڈی وی آر پولیس کے پاس تھی اور کہا کہ شوکت مقدم 10 بجے جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا، شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچا جبکہ مدعی شوکت مقدم نےکہا کہ قتل کےحوالے سے 10 بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا، گواہ پولیس کانسٹیبل اقصی رانی کہتی ہے کہ دس، سوا دس بجے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی،کرائم سین کا انچارج عمران نے کہا تھا کہ میں 10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گیاتھا،تفتیشی افسرعبدالستار نے بتایا ہے کہ 9 بج کر 45 منٹ پر قتل کی اطلاع ملی تھی،تھراپی ورکس کے ملازمین تو جائے وقوعہ پر تھے، انہوں نے تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹیو طاہرظہورکو قتل کا بتایا،اگر سب کچھ تھانے میں بیٹھ کرکیا گیا ہو تو ایف آئی آر میں مختلف تحریریں نہیں ہونی چاہیے تھیں۔

پراسیکیوٹر رانا حسن نے عدالت کو بتایا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک باپ کی کیا حالت ہوگی جب وہ اپنی بیٹی کی سر کٹی لاش دیکھے گا، ملزمان کے وکلاء نے الزام لگایا کہ شوکت مقدم نے خون میں لت پت لاش کے حوالے سے بیان نہیں دیا، سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ظاہرجعفر جائے وقوعہ سے گرفتارہوا، ڈی وی آر کومستند قراردیا گیا ہے اور آخری ثبوت کےطور پر لیا گیا ہے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن کا مزید کہنا تھا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر جائے وقوعہ سے آلہ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا ہے، مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے کپڑوں پر خون لگا ہوا ہے اور اس کے بعد کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات مانی گئی ہے کہ نورمقدم کا قتل ہوچکا تھا، جب سرکوجسم سے الگ کردیا گیا تومطلب خون کی روانی نہیں ہوگی اور قتل ہوگیاہے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن نے یہ بھی کہا کہ ڈی وی آر میں سب کچھ نظر آرہا ہے کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں آیا، اس سلسلے میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے نکل گلووز پر بھی نورمقدم کا خون لگا ہوا ہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نورمقدم کوقتل سےقبل ٹارچرکیا گیا، پنجاب فارنزک ایجنسی نے ڈی وی آرکو منظور کیا کہ اس پر کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی ہے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن کا کہنا تھا کہ ظاہرجعفر کا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ ہوا اور میچ ہوا جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، میڈیکل رپورٹ کے مطابق نورمقدم کے پھیپھڑوں میں ڈرگ اور زہر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوئی۔

کیس کے حوالے سےپراسیکیوٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ظاہرجعفر پر قتل اور زیادتی کرنے کے چارجز لگے ہیں،ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی پر قتل کی اطلاع نہ دینے اور سہولت کار کے چارجز لگتے ہیں،اگروالدین پولیس کو اطلاع دے دیتے تو نورمقدم کو قتل ہونے سے بچایا جاسکتا تھا جب کہ چوکیدار اور مالی سب کچھ دیکھ رہے تھے لیکن کہتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے،چوکیدار اور مالی پر سزائے موت اور تاعمر قید کے چارجز لگتے ہیں،تھراپی ورکس کےچیف ایگزیکٹیو طاہرظہوراورملازمین پرعمر قید اور سزائے موت کے چارجز لگتے ہیں۔

ملزمان کے وکلاء کے حتمی دلائل

اکیس فروری کو نورمقدم قتل کیس میں تمام ملزمان کے وکلاء نے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔پیر کو تھراپی ورکس کے 5 ملزمان (دلیپ کمار، وامق ریاض،ثمر عباس،عبد الحق اور امجد محمود) کے وکیل شہزاد قریشی نےدلائل دئیے۔

وکیل شہزاد قریشی سے جج نے استفسار کیا کہ یہ لوگ جائے وقوعہ پر کس وقت پہنچےتھے۔ جج کو وکیل نے بتایا کہ یہ لوگ پاکستانی وقت کے مطابق رات 8 کے قریب جائے وقوعہ پر پہنچنے تھے اور ڈی وی آر کے اندر پورا واقعہ موجود ہے اور جائے وقوعہ پر کسی نے بھی شواہد کو مٹانے کی کوشش نہیں کی۔

شہزاد قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ڈی وی آر کھلنے کے بعد ثابت ہو گیا کہ میرے ملزمان نے مرکزی ملزم کو وہاں سے گرفتار کیا اور عدالت سے استدعا ہے کہ یہ پانچوں ملزمان بےگناہ ہیں،ان کو بری کیا جائے۔

تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے بھی حتمی دلائل دئیے اور بتایا کہ میرے موکل پر الزام لگایا گیا کہ طاہر ظہور کو ذاکر اور عصمت مقدم نے فون کیا، طاہر ظہور کے متعلق کہا گیا کہ ان کو ہدایت دی جاتی رہیں تاہم اب پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کون سی ہدایات دی جاتی رہیں، سی ڈی آر کےعلاوہ ریکارڈ پر کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔

وکیل اکرم قریشی نے عطاءربانی کی عدالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں بتایا گیا کہ سی ڈی آر بغیر ٹرانسکرپٹ کے بطور شواہد استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

انھوں نے مزید دلائل دئیے کہ تھراپی ورکس ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی،پولیس افسران کو واقعہ کی اطلاع 8:40 پر پہنچ چکی تھی اور اگر پولیس نےجائے وقوعہ پرپہنچ کربھی ایف آئی آر درج نہیں کی تو 174 کا پرچہ تو پولیس پر بنتا ہے۔

وکیل اکرم قریشی نےمزید دلائل دئیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پولیس افسران کی تمام تفتیش مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہوچکی تھی، جس طرح سب کچھ گول مال نظر آتا ہے،سمجھ نہیں آتی کہ پولیس نےکیسی تفتیش کی ہے،پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کرپولیس نے ساری کاروائی کی ہے اور مقدمے کی دو مختلف تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ کہانی بنائی گئی ہے، پولیس افسران نے تفتیش کے دوران غیر ذمہ دار ی کا مظاہرہ کیا۔

عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال کے دلائل

عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے بھی عدالت میں دلائل دئیے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کوچھپایا گیا کہ پولیس کو واقعہ کی اطلاع کہاں سے ملی، جو عینی شاہدین تھے انہیں بطورعینی شاہد ہی عدالت میں پیش کیاجاتا، ہمارے کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ پولیس ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ پاتی اور قتل کے وقت کے حوالے سے بھی پراسیکیوشن نے بھی کنجوسی سے کام لیا۔

وکیل اسد جمال نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن نے کہا تھا کہ قتل رات کو ہوا لیکن کوئی ٹائم لائن پیش نہیں کی گئی،ٹائم لائن قائم کیےبغیر کیس قائم نہیں کیا جاسکتا، موت کا وقت ایف آئی آر میں درج نہیں اور نہ ہی گواہان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کب واقعہ ہوا۔

انھوں نے کہا کہ اس کیس میں پراسیکیوشن کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے،4 گھنٹے کا گھپلا ہے جو پولیس کی تفتیش کی جانب سے بنایا گیا،کیس میں کوئی ایسا فقرہ نہیں کہا گیا جس میں کیس ہمارے ساتھ جوڑا جا سکے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم پر الزام ہے کہ ہم نے قتل کی اطلاع پولیس کو نہیں دی، ہم پر ثبوتوں کو جائے وقوعہ سے ہٹانے کا الزام لگایا گیا تاہم کرائم سین انچارج یہ کہ سکتا تھا کہ ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا، مقتولہ نورمقدم کے موبائل یا واٹس ایپ کا ڈیٹا بھی نہیں لیا گیا۔

ذاکرجعفر کا تحریری بیان

چودہ فروری کو مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے عدالت میں تحریری بیان دیا کہ اس کا قتل کیس سے کوئی تعلق نہیں اور ساتھیوں سمیت غلط انداز میں اس کیس میں گھسیٹا ہے۔

 مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل شہریار نواز عدالت میں پیش ہوئے اورملزم کا تحریری جواب اور یو ایس بی عدالت میں جمع کروائی۔جج نے استفسار کیا کہ یہ یو ایس بی کس چیز کی ہے۔وکیل شہریار نواز نے بتایا کہ یو ایس بی میں ریلیشن شپ سے متعلق 2 ویڈیوز ہیں۔

مدعی کے وکیل نثار اصغر نے درخواست کی کہ کیا ویڈیو کلپس ہمیں بھی مہیا کی جائینگی۔ وکیل اسد جمال نے کہا کہ آپ کو بھی فراہم کردیتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے تحریری بیان میں بتایا کہ میں بے گناہ ہوں اور مجھے ساتھیوں سمیت غلط طور پرکیس میں گھسیٹا گیا۔ ملزم ظاہر نے اعتراف کیا کہ نور مقدم کے ساتھ لونگ ریلیشن شپ میں تھا اورنور نے مجھے زبردستی امریکہ کی پرواز لینے سے منع کیا تھا، نور مقدم نے کہا تھا کہ میں بھی تمہارے ساتھ امریکہ جانا چاہتی ہوں اورنور نے دوستوں کو فون کرکے ٹکٹ خریدنے کے لیے رقم  حاصل کی تھی۔

ملزم ظاہر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ہم ائیرپورٹ کیلیے نکلے مگر نور نے ٹیکسی کو واپس گھر کی طرف مڑوا دیا اور میں اس کوروک نہ سکا۔

ملزم ظاہر نے اپنے بیان میں بتایا کہ میرے گھر پر نور نے اور دوستوں کو بھی ڈرگ پارٹی کیلیے بلایا تھا اور جب پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا،جب ہوش میں آیا تو مجھے باندھا ہوا تھا اور پولیس نے آکر مجھے بچایا تھا۔

ملزم ظاہر نے یہ بھی کہا کہ مجھے ہوش میں آنے پر پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے اور اس واقعے میں مجھے اور میرے والدین کو غلط طور پر پھنسایا جا رہا ہے کیونکہ یہ واقعہ میری گھر میں ہوا ہے۔

ملزم ظاہر نے مزید بیان دیا کہ پولیس کے آنے سے پہلے شوکت مقدم اور ان کے رشتہ دار ہمارے گھر پر موجود تھے لیکن ان سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔

وکیل شہریار نواز خان کی جانب سے دائر 3 متفرق درخواستیں خارج

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں نور مقدم قتل کیس میں دائر درخواستیں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے خارج کی تھیں۔

ملزمان کی جانب سے دائر تین درخواستوں پر مدعی کے وکیل نے دلائل دئیے تھے۔

وکیل نے بتایا کہ 24جولائی کو موبائل ریکوری کا سائٹ پلان بنایا جس میں گرین ایریا  کا ذکر موجود ہے۔27  جولائی کی رپورٹ میں بھی گرین ایریا کا ذکر موجود ہے۔موبائل نمبر کی اونرشپ کے لیے احکامات جاری کرنے کی دوسری درخواست پر سماعت بھی ہوئی۔

مدعی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ موبائل نمبر نورمقدم کی والدہ کے زیر استعمال تھا، اس مرحلے پر ایسی درخواست صرف کیس لٹکانے کا بہانہ ہوسکتا ہے اور یہ درخواستیں قابل سماعت نہیں۔

آئی جی کے خلاف تیسری درخواست پر پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نےدلائل دئیے۔

پبلک پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایسی کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوئی جس کا ذکر درخواست میں موجود ہے، ایسی کوئی بات نہیں کہ کورٹ پروسیڈنگ پر آئی جی نے مداخلت کی کوشش کی،اسلام آباد پولیس نے ایک وضاحت ٹوئٹرپر جاری کی۔

پبلک پراسیکوٹر نے واضح کیا کہ ہم کبھی بھی پروسیڈنگ میں کسی قسم کی مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتے اورعدالت سے درخواست خارج کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔

مدعی کے وکیل نے بتایا کہ درخواست میں جو کچھ کہا گیا اس میں نا پروسیڈنگ اور نہ کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے۔

آئی جی اسلام آبادکی جانب سے وضاحت جاری کرنےکےخلاف درخواست مسترد کی گئی۔تفتیشی افسر اورجائے وقوعہ کاوزٹ کرنےسےمتعلق دوسری درخواست خارج کردی گئی۔ موبائل نمبرکی ملکیت معلوم کرنے سے متعلق تیسری درخواست بھی مسترد کردی گئی۔

 دو فروری کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے3نئی درخواستیں دائر کی تھیں۔ کیس کی تفتیش سے متعلق آئی جی سے وضاحت کی استدعا کی گئی تھی کہ شوکت مقدم کے بیان کردہ نمبر کی اونرشپ کی تصدیق کی جائے۔

اس کےعلاوہ پریزائیڈنگ افسر کی جانب سےجائے وقوعہ کا خود جائزہ اور تفتیشی افسر کے نقشہ درست نہ بنانے پر کاروائی کی درخواستیں دائر کی گئی۔اس سماعت کے بعد نورمقدم قتل کیس میں مدعی وکیل شاہ خاور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان کے شہادت نامے کے بعد آخری بحث ہوگی اور کیس کا فیصلہ ہوجائے گا۔

تفتیشی افسرعبدالستار پر جرح

چھبیس جنوری کو نورمقدم قتل کیس میں تفتیشی افسرعبدالستار پرجرح کی گئی۔انھوں نے بتایا کہ نور مقدم نے کسی چاہنے والے کو کسی خطرے سے متعلق پیغام نہیں دیا اور کیس کا کوئی چشم دید گواہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ رپورٹ مرگ کی تحریر اور مختلف حالات کی تحریر میری ہے لیکن لکھائی مختلف ہے،رپورٹ مرگ میں لکھا ہےکہ محمد زبیر، لیڈی کانسٹیبل اقصیٰ رانی، ایس ایچ او وویمن اور دیگر ملازمین جائے وقوعہ پر پہنچے۔

انھوں نے بتایا کہ جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو پولیس کے ساتھیوں نے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو پکڑا ہوا تھا لیکن یہ بات ڈی وی آر میں نظر نہیں آئی، ڈی وی آر کے مطابق تھراپی ورکس والوں نے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو زخمی حالت میں گاڑی میں نہیں رکھا۔

ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل  کے وکیل سجاد احمد بھٹی نے بھی تفتیشی افسرعبدالستار پر جرح کی۔

تفتیشی افسرعبدالستار نے بتایا کہ نقشے کے خاکے میں مین گیٹ کے ہونے کا ذکر نہیں کیا،ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کی موجودگی بھی خاکے میں ظاہر نہیں کی گئی۔

تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ 18جولائی سے 20 جولائی کی صبح دس بجے تک مقتولہ نور مقدم کا موبائل کام کررہا تھا،ریکارڈ کے مطابق نور مقدم کو فون اور میسجز آتے بھی رہے ہیں اور وہ کرتی بھی رہی ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سی ڈی آر کے مطابق نور مقدم نے کسی چاہنے والے کو کسی خطرے سے متعلق پیغام نہیں دیا اور کیس کا کوئی چشم دید گواہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

اس کیس سےمتعلق محکمہ پوليس کو اپنے تفتيشی افسر کے بيان پر وضاحت دينا پڑگئی۔

ڈسٹرکٹ عدالت میں وکيل صفائی کا اعلاميہ بھی ريکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ آئی جی اسلام آباد نے نظام انصاف میں مداخلت کی۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ میڈیا کی باتیں میڈیا تک ہی رہنے دیں،وہاں بہت کچھ رپورٹ ہوتاہے۔

جج عطا ربانی نے استفسار کیا کہ کون سی وضاحت اورکب جاری ہوئی ہیں؟ اگرپولیس نے وضاحت سرکاری طور پر کی تو بری بات ہے اور اس پرایکشن لوں گا۔

پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ تفتيشی افسر سے عدالت ميں سوال ہوا تھا کہ کيا ملزم کی پينٹ پر خون کے نشان ملے تھے توتفتيشی نے ناں ميں جواب ديا تھا ليکن يہ نہيں بتايا تھا کہ ملزم نے وقوعہ کے وقت پتلون نہيں بلکہ نکر پہنی ہوئی تھی۔

تفتيشی سے سوال ہوا تھا کہ فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کرايا گيا تو تفتيشی نے ناں کہا تھا ليکن ملزم کا فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کروایا گیا جوکہ مثبت آیا۔

واضح رہے کہ نور مقدم کیس میں فرانزک ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قتل سے پہلے نور مقدم سے جنسی زیادتی ہوئی تھی اورتفتیشی افسران کا کہنا ہے ظاہر جعفر کی پینٹ پر نہیں البتہ شرٹ پر خون کے نشانات تھے۔ نورمقدم کے ناخن سےبھی ظاہر جعفر کی جلد کے نمونےملے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نورمقدم نے جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس چھری سے نورکو قتل کیا گیا اس کےبلیڈ اور دستے پر بھی نور مقدم کا خون لگا ہوا تھا۔

مدعی شوکت مقدم نےبیان قلمبند کروادیا

پندرہ جنوری کو مدعی شوکت مقدم نے اپنا بیان قلمبند کروادیا جس میں انھوں نے بتایا کہ کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں تھی اور بیٹی (نورمقدم) کو ناحق قتل کیا گیا۔ انھوں نےظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔

مقتولہ کے والد اور مدعی شوکت مقدم نے بتایا کہ 20 جولائی 2021 کو نور مقدم نے ٹیلی فون کرکے بتایا تھا کہ وہ لاہورجا رہی ہے اس لیے اس کو دوبارہ تلاش نہیں کیا۔

میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد

چھ جنوری کو میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد ہونے کے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ میں ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی نے بتایا  کہ مرکزی ملزم اپنے والدین کے ساتھ ٹرائل کا سامنا کرتا رہا ہے۔

  تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ 8 دسمبر کو بھی ملزم ظاہر جعفر کا طبی معائنہ ہوا اور اس میں بھی ایسا مشاہدہ نہیں آیا کہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔

عدالتی فیصلے میں بتایا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین یا کسی دوست نے میڈیکل بورڈ کی درخواست دائر نہیں کی۔

آٹھ دسمبر کو بھی ملزم ظاہر جعفر کا طبی معائنہ ہوا اور اس میں بھی ایسا مشاہدہ نہیں آیا کہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کے ساتھ ظاہر جعفر کا کوئی میڈیکل ساتھ نہیں لگایا گیا۔

عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ نورمقدم کا ٹرائل اب اختتام پذیر ہونےوالا ہے اور اس لئے درخواست مسترد کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ عدالت نے 5 جنوری کو فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا اورکیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی تھی۔

ملزم ظاہر جعفر کو پاگل قرار دینے کی درخواست پر وکیل مدعی مقدمہ نے جرح کی تھی اور وکیل شاہ خاور نے تحریری جواب بھی عدالت میں جمع کروایا تھا۔

وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ ملزم جب گرفتار ہوا تو مختلف عدالتوں میں پیش کیا جاتا رہا،جب ملزم پر فرد جرم عائد ہوا تو دیگر ملزمان نے دستخط کیے لیکن مرکزی ملزم نے نہیں کیا۔

وکیل نے کہا کہ مرکزی ملزم کی جانب سے اس وقت درخواست دی گئی جب ٹرائل اختتام پذیر ہو رہا تھا، ملزم کی دماغی امراض کے حوالے سے دی جانے والی درخواست مسترد کی جائے۔

پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے عدالتوں کے حوالہ جات پیش کردئیے اور کہا کہ  ظاہر جعفر کی درخواست جس وکیل نے دائر وہ قابل سماعت ہی نہیں،جس وکیل نے درخواست دائر کی وہ تو اسٹیٹ کونسل ہے۔

ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین کی جانب سے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں ملزم ظاہرجعفر پر مقدمہ درج ہوتا ہے،مرکزی ملزم ظاہرجعفر پر مقدمہ درج ہونے کے بعد میڈیکل پینل بنانے کی درخواست دی گئی۔

تھراپی ورک کے ملازم کی ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست پرسماعت

اسلام آباد ہائی کورٹ میں 5 جنوری کو نورمقدم قتل کیس میں تھراپی ورک کے ملازم کی ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل عدالت میں پیش نہ ہوئے توعدالت نے بغیر کاروائی سماعت ملتوی کردی۔ تاہم تھراپی ورک کے وکیل اکرم قریشی سماعت میں تاخیر سے عدالت آئے۔

جسٹس عامر فاروق نے وکیل اکرم قریشی سے مکالمہ کیا کہ آپ موجود نہیں تھےتوآپ کا کیس ملتوی ہوگیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ  عدالت 17 جنوری کے لیے کیس مقرر کردے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 جنوری کے لیے مقرر کردی۔

تھراپی ورکس کے ملازم امجد نے ملزم ظاہر جعفر اور تفتیشی کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔

تھراپی ورک کے امجد کی ملزم ظاہر جعفر کے خلاف کارروائی کی استدعا ٹرائل کورٹ نے خارج کردی تھی۔

امجد کی درخواست میں تفتیشی افسر عبد الستار خان کے خلاف بھی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین کی نئی درخواست

یکم دسمبر کو نورمقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہرذاکرجعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے نئی درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ مرکزی ملزم ذہنی مریض ہےاور اس کا میڈیکل کرایا جائے۔ یہ درخواست ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں دائر کی گئی۔

اے ایس آئی محمد زبیر کا بطور گواہ عدالت میں بیان بھی درخواست میں شامل کیا گیا کہ جب کمرے کے اندر گئے تو خاتون کی لاش پڑی تھی اور ان کا گلا کٹا ہوا پڑا تھا۔جائے وقوعہ پراس وقت چار، پانچ بندوں نے ملزم ظاہر جعفر کو قابو کیا ہوا تھا۔ اس کےبعد وہ لوگ ہمیں دیکھتے ہی وہاں سے نکل گئے اور ہم نے ملزم کو قابو کیا۔ گواہ نے مزید بتایا کہ ملزم نے اپنا نام ظاہر بتایا اور لڑکی کا نام نورمقدم بتایا اور ملزم نے ہی خود لڑکی کے والد شوکت مقدم کا ٹیلی فون نمبر دیا۔

ملزم طاہر ظہور کےوکیل اکرم قریشی نےبھی عدالت میں درخواست دائر کردی ۔عدالت سے استدعا کی گئی  کہ تھراپی ورکس کےزخمی ملازم امجد کا میڈیکل کرنے والے پمز اسپتال کے ڈاکٹر کو بھی بطور گواہ طلب کیا جائے۔

اس کےعلاوہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے اے ایس آئی نے جائے وقوعہ کی صورتحال سے متعلق عدالت میں بیان دیا کہ جب وہ اندر داخل ہوا تو کمرے میں پستول، چاقو، آہنی مکا،پستول کی گولیاں اور سگریٹ موجود تھی۔ کمرے سے آلہ قتل سمیت تمام چیزوں کی موجودگی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی ۔

کیس کی سماعت کے بعد مدعی وکیل شاہ خاور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ظاہر جعفر کے وکیل نے درخواست دی کہ ظاہرجعفر پاگل ہے اور ملزم کا عدالت میں رویہ بھی ایسا رہا ہے جس کی وجہ سے کئی بار اس کو باہر نکالا جا چکا ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ظاہر جعفر کو شاید کہا گیا ہے کہ وہ پاگلوں والی حرکتیں کرے۔ اگرعدالت کسی کو ذہنی مریض قرار دے تواس کا  ٹرائل معطل رہتا ہے۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا گیا کہ ظاہرجعفر کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کے حوالے سے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی ہورہی ہے۔

شریک ملزمہ عصمت کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج کی فراہمی کی درخواست خارج

پچیس نومبر کوشریک ملزمہ عصمت آدم کی واقعے کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج کی فراہمی کی درخواست عدالت نے خارج کردی۔اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نورمقدم قتل کیس میں تین مختلف درخواستوں پراحکامات ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے جاری کیے۔عدالت نےتینوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ملازم امجد کی مرکزی ملزم ظاہراورتفتیشی افسرکے خلاف درخواست خارج

بیس نومبر کو تھراپی ورکس کے ملازم امجد کی مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور تفتیشی افسر کے خلاف درخواست خارج کردی گئی تھی۔ایڈیشل سیشن جج عطا ربانی نے پرائیویٹ کمپلینٹ پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

 بارہ نومبر کو اسلام آباد کے سیشن کورٹ میں نورمقدم قتل کیس تھراپی ورکس کے زخمی ملازم امجد نے انسپکٹرعبدالستار اور ظاہرجعفرکے خلاف استغاثہ دائر کیا تھا۔عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ تفتیشی افسر عبدالستاراور ظاہر جعفر کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔تفتیشی افسر نے ہمیں گواہ بنانے کے بجائےملزمان بنادیا اورتفتیشی افسر نے ملزم ظاہر کو فائدہ پہنچانےکی کوشش کی۔

درخواست گزارنے موقف اختیار کیا کہ ظاہر جعفر نے 9 ایم ایم پستول سے فائرکرنے کی کوشش کی لیکن گولی نہیں چلی۔درخواست گزار نے مزید بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تھراپی ورکس کے ساتھ کام کررہا ہوں اورتھراپی ورکس میں نشے کے عادی اورنفسیاتی مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

ملزم امجد کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے وقت پہنے گئے خون آلود کپڑے اور میڈیکل سرٹیفکیٹ تک نہیں لیا گیا۔ ملزم نے وکیل شہزاد قریشی کے ذریعے استغاثہ تھانہ کوہسار کےعلاقہ مجسٹریٹ کے پاس دائر کیا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے پرعدالت میں درخواست دائر

نورمقدم کیس میں بدھ 17 نومبر کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ ملزمان کے وکلاء نے واقعے کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج  فراہم کرنے کی درخواست دائر کی۔ ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل نے درخواست ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کے پاس دائر کی۔

اس درخواست میں واقعے کی پوری سی سی ٹی فوٹیج فراہم کرنے کی استدعا کی گئی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ 12اور 13 نومبر کو سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے کی انکوائری کرائی جائے اور ملزم کی جانب سے واقعے کی سی سی ٹی فوٹیج وائرل نہیں ہوئی ہے۔

چودہ نومبر کو سماء سے گفتگو کرتے ہوئے نورمقدم کے والد شوکت مقدم کے وکيل شاہ خاور نے بتایا کہ ظاہر جعفر کے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نہ صرف مرکزی ملزم ظاہر جعفر بلکہ اُس کے ملازمين کے خلاف بھی اہم ثبوت ہے اور يقين ہے کہ تمام ضابطے مکمل ہونے کے بعد عدالت سزا سُنائے گی۔انہوں نے کہا کہ کيس درست سمت ميں ہےاورکوئی تاخير نہيں ہورہی ہے تاہم ضابطے کی تمام کارروائی مکمل ہونا ضروری ہے۔

سی سی ٹی وی ریکارڈنگ

 نو نومبر بروز منگل کو ڈسٹرکٹ کورٹ میں اسلام آباد پولیس نے واقعے کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ جمع کروائی۔ ریکارڈنگ کا وقت پاکستان کے معیاری وقت سے 35 منٹ آگے تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نور مقدم 18 جولائی کو رات 10 بج کر 18 منٹ پر فون سنتے ہوئے ملزم کے گھر داخل ہوئی۔ 19جولائی کی رات 2 بج کر 39 منٹ پر ظاہر ذاکراورنورمقدم بیگ لے کر گیٹ سے باہر نکلے اور مین گیٹ کے باہر ٹیکسی میں سامان رکھ کر دونوں دوبارہ گھر میں داخل ہوئے۔

اس کے بعد 2 بج کر 41 منٹ پر نورمقدم ننگے پاﺅں گیٹ کی طرف بھاگ کر آئی لیکن فوٹیج میں دیکھا گیا کہ چوکیدار افتخار نے گیٹ کو بند کردیا۔ اس دوران ظاہرذاکرنے گیٹ پر آکر نور مقدم کو دبوچ لیا۔ نورمقدم ہاتھ جوڑ کر ظاہرذاکر کی منت سماجت کرتی رہی لیکن نورمقدم کو زبردستی کھینچ ظاہرگھرکے اندر لے گیا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ رات 2 بج کر 46 منٹ پر دونوں دوبارہ مین گیٹ سے باہر نکلے اورگھر کے باہر موجود ٹیکسی میں بیٹھ کر چلے گئے۔2 بج کر 52 منٹ پر دونوں بیگ سمیت واپس گھر میں داخل ہوئے۔ مین گیٹ پرچوکیدارافتخار اورصحن میں کتا بھی نظرآ رہا تھا۔

اس کے بعد20 جولائی کو شام 7 بج کر 12 منٹ پر نور مقدم نے فرسٹ فلور سے چھلانگ لگائی اور وہ گراﺅنڈ فلور کی گیلری کے ساتھ لگے جنگلے پر جا گری۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ نورمقدم لڑکھڑاتی ہوئی دروازے پر آئی اوراس کے ہاتھ میں موبائل فون بھی تھا۔ نور مقدم باہر جانا چاہتی تھی مگر چوکیدار افتخار اور مالی نے گیٹ بند کردیا۔ اس دوران ظاہر جعفر بھی ٹیرس سے چھلانگ لگا کر گراؤنڈ فلور پرآگیا۔ ظاہرجعفر نے دوڑ کر نور مقدم کو پکڑ کر گیٹ پر بنے کیبن میں بند کردیا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ظاہرنے کیبن کھول کر نور مقدم سے موبائل فون چھین لیا اور اس کے بعد اس کو زبردستی گھر کے اندر لے گیا۔ویڈیو میں دیکھا گیا کہ 20 جولائی کو 8 بج کر 6 منٹ پر تھراپی ورکس کی ٹیم دروازے سے اندر آئی۔8 بج کر 42 منٹ پر ٹیم گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہی ہے۔8 بج کر 55 منٹ پر تھراپی ورکس ٹیم ایک زخمی کو گھر سے باہر لے جا رہے تھی۔

چار نومبر کو مارگلہ پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ انجم مقصود کے سامنے ظاہر جعفر کو پیش کیا جنھوں نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ تین نومبر کو نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کےخلاف نیا مقدمہ درج کیا گیا ۔ ظاہر جعفر کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مقدمہ انسپکٹر غلام مصطفٰی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ ملزم نے 3 نومبر کو عدالت میں پولیس افسر پر حملہ کیا اور گالم گلوچ کی۔ ظاہر جعفر نےعدالتی حکم کے باوجود باہر جانے سےانکارکیا۔ مقدمے کے متن میں یہ بھی درج ہے کہ کمرہ عدالت سے باہرلانے پرملزم نےمدعی کو گریبان سے پکڑ کر کھینچنا شروع کیا اورملزم نے اپنےآپ کو ٹکر مار کر زخمی کرنے کی کوشش بھی کی۔ متن میں مزید لکھا ہے کہ ملزم نے عدالت کے تقدس کو پامال کیا۔

واضح رہے کہ بدھ 3 نومبر کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نورمقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم ظاہرجعفر نےعدالت میں بدتمیزی کی۔دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کئی بار بولنے کی کوشش کی اور غلیظ زبان استعمال کی۔ملزم ظاہر جعفر بار بار حمزہ کا نام پکارتا رہا اور کہا کہ یہ میراکورٹ ہےاور میں نےایک چیز کہنی ہے۔

اس موقع پرجج نے پولیس کوملزم کوکمرہ عدالت سے باہرلےجانے کی ہدایت کی توملزم نے کہا کہ میں کمرہ عدالت میں رہ کر جج کو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ملزم نے پولیس سے استدعا کی کہ اب نہیں بولوں گا۔ تاہم ملزم کی جانب سے مسلسل اونچی آواز نکالنے پر پولیس اہلکاروں نے اس کو اٹھا کر باہر نکال دیا۔

عدالت میں استغاثہ کے گواہ نقشہ نویس نے بیان قلمبند کیا۔گواہ نے عدالت کو بتایا کہ گواہی میں 161 کے بیان کی تاریخ  اور نوٹ میرے لکھے ہوئے ہیں۔ وکیل نے گواہ سے سوال کیا کہ نقشہ آپ کا اپنا تیار کردہ ہے اور آپ نے درست تیار کیا تھا۔ گواہ نے کہا کہ جائے وقوعہ کا نقشہ میں نے موقع پر انسپکٹر کی ہدایت پرتیار کیا تھا اور اسے درست کہا تھا۔

تیس اکتوبرکو سیشن عدالت حکم نامے میں عدالت نے کہا  کہ یہ صنفی بنیاد پر تشدد کا کیس ہے اور ہائی کورٹ اس کیس کو 2 ماہ میں نمٹائے۔عدالت نے مزید بتایا کہ ملزمان کی جیل سے اسی لیے وڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگائی گئی کیوں کہ ویڈیو لنک کے ذریعے جیل سے حاضری لگوانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔

خاتون پولیس اہلکار اقصیٰ رانی کے مطابق دوران پوسٹ مارٹم مقتولہ نورمقدم کے جسم پرزخم کے 8 نشان پائے گئے۔ 4 نشانات چھاتی پر،3 دائیں کان کے نیچے اورایک نشان ماتھے پر تھا۔

 اکیس اکتوبر کواسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزمان کی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی۔عدالت نے گواہان کے بیانات کی نقول فراہم کرنے کی درخواست منظورکرلی۔ جسٹس عامر فاروق نے ملزمان کے شواہد فراہمی کی درخواستیں نمٹا دیں اورملزمان کی درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔

درخواست گزار کے وکیل اسد جمال نے استدعا کی تھی کہ ابھی تک اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، فرانزک رپورٹ اور دیگر شواہد فراہم نہیں کئے گئے۔

خانساماں جمیل احمد کی درخواست ضمانت منظور

تیئس اکتوبرکواسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ملزم جمیل احمد کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ سنایا۔عدالت نے ملزم جمیل احمد کو50 ہزار روپے کے مچلکوں کےعوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے درخواستِ ضمانت پر دلائل سننے کے بعد 21 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے ضمانت منظور کرنے کا مختصر فیصلہ سنایا ۔

جمعرات 21 اکتوبر کو ملزم جمیل احمد کے وکیل راجہ رضوان عباسی اور مدعی کے وکیل بابر علی سمورش عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ وکیل درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ کی ضمانت منسوخی کا فیصلہ عدالت کو پڑھ کر سنایا تھا۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے درخواست گزار نے 161 کا بیان ریکارڈ کرایا؟ وکیل راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ میرے موکل نے 161 کا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔

شوکت مقدم کے وکیل نے بتایا کہ درخواست گزار جمیل کے خلاف چارج فریم ہوچکا ہے،ملزم جمیل کا مالی اورچوکیدار تک کے ساتھ رابطہ تھا،درخواست گزار کی موقع واردات کے گھر پر موجودگی ثابت ہے۔

اس پرعدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی بیان میں تو درخواست گزار نے خود کہا کہ مجھے مالی نے بتایا تھا۔شوکت مقدم کے وکیل کی جانب سے چارج فریم کی کاپی عدالت کو فراہم کی گئی۔

ذاکرجعفر کی فرد جرم کے خلاف درخواست واپس

بائیس اکتوبر کو نورمقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکرجعفر نے فردِ جرم کے خلاف درخواست واپس لے لی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ ملزم ذاکرجعفرکے وکیل راجا رضوان عباسی نے درخواست واپس لی۔

اٹھارہ اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کے والد ذاکرجعفر کی فرد جرم کے خلاف دائر درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تھا۔ قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکرجعفر نے فرد جرم کو چیلنج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ذاکر جعفر نے ٹرائل کورٹ کا 14 اکتوبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

ذاکر جعفر کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ کا آرڈر قانونی نظر سے نامناسب ہے، ٹرائل کورٹ نے تاثردیا کہ فرد جرم پراسیکیوشن کی خواہش کے مطابق ہوتی ہے، آرڈر سے تاثر ملا کہ پولیس جو بھی الزام لگا دے اس پر فردِ جرم ہو سکتی ہے۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے تاثر دیا کہ فرد جرم محض ایک مکینیکل مشق ہے،اس لئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

عصمت ذاکر کی ضمانت کا تحریری فیصلہ

سپریم کورٹ نے نورمقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی والدہ عصمت ذاکر کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔3 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریر کیا۔ تحریری فیصلے میں درج ہے کہ عصمت ذاکر کی خاتون ہونے کے ناطے درخواست ضمانت منظور کی جاتی ہے، عصمت ذاکر 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائیں۔

فیصلے میں درج ہے کہ ضمانت کے غلط استعمال، گواہان پر اثر انداز ہونے کی صورت میں ضمانت واپس لی جاسکتی ہے اور عصمت ذاکر کو فوجداری قانون کی دفعہ 497 کی ذیلی شق ایک کے تحت ضمانت دی جاتی ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر ملزم،خاتون یا بیمار کو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔

اس کےعلاوہ پیر 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں نورمقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت ذاکر کی درخواست ضمانت منظورکی گئی۔عدالت نے عصمت ذاکر کو10 لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا ۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ نورمقدم کے قتل میں ملزم کی والدہ کا کردار ثانوی ہے۔ ملزمان کے وکیل کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی گئی۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرے گی، ٹرائل کورٹ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا پورا حق فراہم کرے۔مقدمے کے فیئر ٹرائل میں کسی صورت کمپرومائز نہیں کیا۔فوجداری مقدمہ 3 دن کا کیس ہوتا ہے۔ دو دو سال سال ٹرائل ہی مکمل نہیں ہونے دیا جاتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کے روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کی ہدایت کردیتے ہیں۔

 اس سے قبل ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ عصمت ذاکر اور ذاکر جعفر  مرکزی ملزمان نہیں،ملزمان کو قتل چھپانے اور پولیس کو اطلاع نہ دینے کا الزام ہے جبکہ قتل چھپانے کے حوالے سے ملزم کا بیان اور کالز ریکارڈ ہی شواہد ہیں۔خواجہ حارث نے بتایا کہ پونے 7 بجے سے 9 بجے تک والد ملزم سے رابطے میں رہا۔

بیس اکتوبر کو نورمقدم قتل کیس میں ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے کیس ٹرائل کا باقدہ آغاز کیا۔ ماتحت عدالت نے استغاثہ کے پہلے گواہ کا بیان قلمبند کیا۔ گواہان میں مقدمے کا تفتیشی کمپیوٹرآپریٹراور نقشہ نویس شامل تھے۔گواہ کے بیانات پر وکیل نے1 گھنٹہ تک جرح کی۔گواہ سےکیس سے متعلق مختلف سوالات پوچھے گئے۔عدالت نےمرکزی ملزم ظاہر جعفرکا وکیل بھی مقرر کردیا۔

 واضح رہے کہ جمعرات 14 اکتوبر کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے ملزمان پر فرد جرم عائد کی۔عدالت میں مرکزی ملزم سمیت 6 ملزمان کو اڈیالہ جیل سے اسلام آباد کچہری عدالت پیش کیا گیا۔ ضمانت پر موجود تھراپی ورک کے 6 ملزمان بھی عدالتی نوٹس پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ مرکزی ملزم ظاہرجعفر،ذاکر جعفر،عصمت آدم،افتخار،جمیل،جان محمد پرفرد جرم عائد کی گئی۔ تھراپی ورک کے طاہر ظہور سمیت6 ملزمان پر بھی فرد جرم عائد کی گئی۔ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔

دوران سماعت ذاکر جعفر کے وکیل رضوان نے بتایا کہ عدالت میں پیش شواہد کا ذاکر جعفر سے تعلق نہیں بنتا اوران شواہد کی بنا پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔شوکت مقدم کےوکیل نے بتایا کہ ان شواہد کا جائزہ ٹرائل میں لیا جا سکتا کیوں کہ اس وقت فرد جرم عائد کی جا رہی ہے اور سزا نہیں سنائی جا رہی ہے۔

وکیل کے دلائل کے دوران ظاہر جعفر مسلسل مداخلت کرتے رہے۔انھوں نے تھراپی ورکس کے اہلکاروں کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندے میرے گھر داخل ہوئے۔ ظاہر جعفر نے کہا کہ میری زندگی خطرے میں ہے اور یہ میری جائیداد کا ذکر کررہے ہیں،میری جائیداد سے متعلق یہاں بات نہ کی جائے۔ ملزم ظاہر جعفر نے انکشاف کیا کہ نور قربان ہونا چاہتی تھی اور اس نے خود کو قربانی کیلئے پیش کیا۔

ملزم ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں شوکت مقدم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی اور کہا کہ میرے زندگی خطرے میں ہے،مجھ  پر رحم کریں۔ظاہر جعفر کا ملازم ملزم افتخار کمرہ عدالت میں رو پڑا اور کہا کہ نور مقدم کا دو سال سے آنا جانا تھا اور مجھے علم نہیں تھا کہ یہ ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button