تازہ ترینخبریںپاکستان

ججز کیلئے علیحدہ قانونی معیارات نہیں ہیں، چیف جسٹس

احتساب کے عمل کے خلاف تنقید کو رد کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ججز کو قانون کے عام عمل سے محفوظ رکھا گیا ہے لیکن وہ دوسرے سرکاری ملازمین کے مقابلے میں احتساب کے علیحدہ یا کم قانونی معیار کے تابع نہیں۔

انہوں نے یہ بات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرِ ثانی درخواست پر جاری کیے گئے اقلیتی فیصلے میں لکھی۔

فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ درحقیقت یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے، بالخصوص اعلیٰ عدالتوں کے ججز، جو پاکستان کے عوام کی خدمت کر رہے ہیں، وہ اپنی اور اپنی عدالت کی سالمیت اور ساکھ کی حفاظت کے لیے اپنے متعلقہ فورمز کے سامنے جوابدہ رہیں۔

اس فیصلے کی توثیق جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کی، جو جسٹس عیسیٰ کی نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ کرنے والے سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے رکن تھے۔

جسٹس منیب اختر کے اضافی نوٹ کے ساتھ اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ اگر تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر ججز کے خلاف شکوک و شبہات کو دور نہ کیا گیا تو عدالتوں کی اخلاقی اتھارٹی ختم ہو جائے گی اور اس کا بنیادی کام یعنی آئین و قانون کے مطابق لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کا فیصلہ کرنا، بری طرح مجروح ہوگا۔

فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے شریک حیات اور خاندان کے افراد کے غیر واضح اثاثوں کے لیے جوابدہ ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ جج خصوصی فورم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے جوابدہ ہیں، جو آئین کی دفعہ 209 کے تحت ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات کے فیصلے کے لیے بنائی گئی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موجودہ کیس میں تسلیم کیا گیا کہ لندن کی تین جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مسز سرینہ عیسیٰ اور ان کے بچوں کی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دو جائیدادیں بنام 40 اوکڈیل روڈ اور 90 ایڈیلیڈ روڈ سال 2013 میں اس وقت خریدی گئی تھیں جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عوامی عہدے پر فائز تھے جب کہ یہ جائیدادیں سرینہ عیسیٰ اور ان کے شوہر کے ‘ویلتھ اسٹیٹمنٹس میں ظاہر شدہ نہیں’ تھیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ لندن کی جائیدادوں کا انکشاف نہ کرنے سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے، ایسے حالات میں درخواست گزار جج سے ان جائیدادوں کی فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں سوال فطری، متعلقہ اور قانونی تھا، باوجود اس کے کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی تیاری میں کسی بھی طریقہ کار کی کوتاہی ہوئی ہو۔

اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ اس طرح کے سوال کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کی سروس میں ہونے کی وجہ سے درخواست گزار جج اپنی شریک حیات کے بے حساب اثاثوں کے لیے جوابدہ ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں مزید کیا کہ کسی بھی نظرثانی درخواست گزار کی جانب سے ان سوالات پر کوئی تسلی بخش استدلال پیش نہیں کیا گیا کہ کیوں احتساب کا کوئی معیار یا الگ یا کم معیار ججوں پر لاگو نہیں ہونا چاہیے اور اس اسکور پر جج کے خلاف موصول ہونے والی معلومات پر کارروائی کرنے سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل متعلقہ قانونی حکام کے حتمی فیصلہ کا انتظار کیوں کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button