نظریہ ضرورت ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار …
اسلاف پر نظر دوڑائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے،اِن کاکردار کیسا تھا اور وہ کیسے دنیابھر میں حکمران رہے ۔ یہ تو اِن پروانوں کے دور کی بات کر رہا ہوں جن کی تربیت سرکار دوعالم نے فرمائی اور سرکارکی اپنی ذات مبارک کی کیا مثال دوں کہ آپ جیسا کوئی اِس روئے زمین نے نہ دیکھا اور نہ ہی تاقیامت دیکھے گی ۔ بحیثیت مسلمان ہماراایمان ہی یہی ہے کہ وہ باکمال ہستی جس نے اپنے صحابہؓکی سفارش پر ارشاد فرمایا کہ پہلی قومیں اِسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اپنے طاقتوروں کو معاف کردیتی اور غریبوں کو سزائیں دیتی۔ حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر حق کا ساتھ دینے والے کبھی مظلوم کی دادرسی سے نہیں چوکتے اور اُن کا یہی کردار تھا جس نے اُنہیں اقوام عالم میں ممتازکر دیا،خلیفہ اول سیدنا ابوبکر ؓ نے ،زکوة کی وصولی کے لیے الگ سے لشکر بھیجتے ہوئے فرمایا کہ اگر مدینے میں کوئی شحص بھی نہ رہے اور یہاں درندے آ کر مجھے کھا بھی جائیں تب بھی میں شرعی احکامات پر عمل درآمد سے باز نہیں آو ¿ں گا اور جو لوگ رسول اکرم کے دور میں اونٹ کی نکیل زکوة کی مد میں ادا کرتے تھے،اُن سے وصول کروں گا۔عدل فاروقی،تو تا قیامت ایک ضرب المثل بن چکا کہ جو مثال سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں پیش کی،وہ تاقیامت تاریخ کے ماتھے پر جگمگاتی رہے گی،نسلِ انسانی عدل فاروقی سے آج بھی مستفید ہو رہی ہے اور تاقیامت مستفید ہوتی رہے گی۔ حضرت علیؓ اپنے دور خلافت میں قاضی کے سامنے ایک عام شہری کی طرح پیش ہوتے ہیں،یہ کون ذات گرامیؓقدر ہے کہ جن کے متعلق نبی اکرم کا فرمان ہے کہ علی حق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
بعد ازاں تاریخ اِس امر کی گواہ ہے کہ یورپ میں انسانی حقوق کے حوالے سے جو بھی آزادیاں آج وہاں کے شہریوں کو میسر ہیں،ان کا منبع و ماخذ یورپ میں بسنے والوں نے قرآنی تعلیمات سے اور ان پر عملدرآمد کروانے کے اداروں کا تصور سیدنا عمرؓ کے دور خلافت سے ہی لیا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہی ،انسانی مساوات پر ہے اور سرکار دوعالمکا ارشاد گرامی ہے کہ کسی گورے کو کالے پر یا کسی عربی کو عجمی پر کوئی امتیاز نہیں اور برتری کا واحد معیار صرف اور صرف تقویٰ پر ہے،جس کا فیصلہ رب العزت کی ذات کرنے والی ہے اور ریا کار کا عمل اس کے منہ پر دے مارا جائیگا۔انسانی مساوات کا یہ اصول ہی تھا کہ جس کے سامنے مفتوحہ علاقوں کے پسے ہوئے لوگ جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہوتے گئے اور جیسے ہی مفتوحہ علاقوں کے لوگ اسلام قبول کرتے،مسلم فاتح فوجیںان کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتے ہوئے،انہیں ان کے مساوی حقوق مہیا کرتیں،ان سے کوئی امتیاز نہ برتا جاتا۔ اس رویہ سے وہ جو دکھاوے کے لیے مسلمان ہوتے،وہ حقیقتاً دل سے اسلام قبول کر کے اپنے مسلمان بھائیوں کے دست و بازو بن جاتے ماسوائے ان لوگوں کے کہ جن کے دلوں پر رب کریم نے کفر کی مہر لگا رکھی تھی۔ اسلامی نظام انصاف تو اتنا پر ُاثر اور فوری تھا کہ بالعموم ایک نشست میں ہی مقدمہ کا فیصلہ ہو جاتا یا زیادہ سے زیادہ دوتین نشستوں میں مظلوم کو انصاف میسر ہو جاتا اور ظالم کے خلاف تادیبیتعزیری کارروائی عمل میں آ جاتی۔تاریخ تو ایک ایسے بے مثل واقعہ کی بھی شاہد ہے کہ اسلامی لشکر ایک شہر پر فتح حاصل کرتا ہے،مفتوحین کے چند اکابرین،خلیف وقت کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں اور اپنی شکایت مراسلہ کی صورت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلامی لشکر کسی بھی شہرقلعے کو فتح کرنے سے پہلے بالعموم اولاً دعوت اسلام دیتے ہیں،دوئم اطاعت کے لیے کہہ کر بعوض جزیہ امان فراہم کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں ۔ ان دونوں صورتوں کے انکار کی صورت میں حملہ کرتے ہیں لیکن ہمارے شہر کی بابت یہ دونوں شرائط پوری نہیں کی گئیں،اس لیے ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ خلیفہ وقت،ان اکابرین کی بات سنتے ہیں اور اسی مراسلے کی پشت پر ،فاتح اسلامی لشکر میں سے ہی ایک جید عالم کو قاضی مقرر کرتے ہوئے مقدمہ سننے اور انصاف کرنے کا حکم تحریر کرتے ہیں اور وفد سے کہتے ہیں کہ اسلامی لشکر میں فلاں کے پاس یہ مراسلہ لے جائیں۔ وفد حیران و پریشان و مایوسی کے عالم میں واپس اپنے شہر آتا ہے اور متعین کردہ شخص کے سامنے خلیفہ وقت کا حکم نامہ رکھتا ہے،تاریخ ہی یہ بتاتی ہے کہ اتفاقاً اس وقت دوسرے شخص اسلامی لشکر کے سالار ہی تجویز کردہ قاضی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں،نامزد کردہ قاضی مراسلہ پڑھتے ہیں اور اسی نشست میں عدالت کا قیام عمل میں آجاتا ہے۔ مفتوحین کی شکایت سالار لشکر کے سامنے رکھی جاتی ہے،ان سے جواب طلب کیا جاتا اور کردار کی عظمت ملاحظہ ہو ،کہ بجائے کوئی تاویل پیش کرنے کے،سالار لشکر شکایت کی سچائی کو بلا حیل و حجت و دلیل تسلیم کرلیتے ہیں،قاضی محترم فوری فیصلہ سناتے ہیں کہ یہ اسلامی جنگی اصولوں کی خلاف ورزی ہے،لشکر کو فوری طور پر شہر سے نکلنے کا حکم صادر کیا جاتا ہے،اس دوران جو مفاد بھی لشکر نے حاصل کیا ہوتا ہے،اسے واپس کرنے کا حکم صادر ہوتا ہے اور اس حکم پر عمل درآمد بھی کروایا جاتا ہے۔ اصولاً تو مفتوحہ شہریوں کو اس حکم اور اسلامی لشکر کے انخلاءپر خوشی کے شادیانے بجانے چاہئے تھے لیکن چشم فلک نے ایک اور ہی عجب نظارہ دیکھا کہ اسلامی لشکر شہر سے چند کوس ہی دور گیا ہو گا کہ شہری روتے دھوتے لشکر کے پیچھے آئے اور انہیں خود شہر آنے کی پیشکش کی کہ ایسے حکمران کہاں ملیں گے۔
دور جدید میں طریقہ کار بدل چکا ہے حتی کہ اسلامی ممالک بھی غیر مسلم معاشرے کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق انصاف کرتے نظر آتے ہیں،اس وقت صرف ایک اسلامی ریاست ہے جہاں شرعی قوانین کسی حد تک موجود ہیں۔ رہی بات انسانی مساوات کی آفاقی اصول کی تو یہ اصول بھی ہمیں غیر مسلم ریاستوں میں بروئے کار نظر آتا ہے کہ آج کے دور میں بھی حاکم وقت منصف کے سامنے ایک عام شہری کی حیثیت میں پیش ہوتا ہے لیکن ان غیر مسلم ریاستوں میں انصاف کی فراہمی کا معیار بہرحال ایسا ہے کہ شہری اس پر اپنا بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی ریاستوں پر نظر دوڑائیں تو یہ تلخ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ یہاں انسانی مساوات کا اصول دم توڑ چکا ہے،حکمران طبقہ یا اشرافیہ قانون سے بالا نظر آتے ہیں،انصاف کی فراہمی ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے،بلکہ اشرافیہ کے لئے رائج قوانین کی تشریح ایسے بھونڈے طریقے سے کی جاتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اقوام عالم میں پاکستانی عدلیہ معیار کے اعتبار سے کہیں نچلے نمبروں پر متمکن نظر آتی ہے،کہ مولوی تمیز الدین مقدمہ سے ”نظریہ ضرورت“کے تحت انصاف کرنے والی پاکستانی عدلیہ کا شمار قانون کی بالا دستی کی بجائے اشرافیہ کو بچانے والی یا اس سے گٹھ جوڑ کرنے والی عدلیہ شمار ہوتی ہے۔ نفسا نفسی کا دور ہے اور یہ پاکستانی تقسیم در تقسیم ،گروہوں میں بٹے نظر آتے ہیں حتی کہ اداروں میں بھی اس گروہی تقسیم کا رجحان مزید بڑھتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہر ادارہ اپنے ساتھیوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کسی بھی حد سے گذرنے کے ”نظریہ ضرورت“کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔