Column

انگریز چلے گئے اپنی لاٹھیاں چھوڑ گئے ….. احمد نوید

احمد نوید …..

انگریز چلے گئے مگر اپنی بہت سی خباثتیں اور کمینگیاں ہمارے متھے مار گئے ۔ لاٹھی چارج جو آج ہماری پولیس اپنی عوام پر بے دریغ استعمال کرتی ہے ۔ انگریز راج کی ہی دین ہے ۔ لاٹھی کو انگریزوں نے 19ویں صدی کے آخرمیں ہندوستانیوں کو قابو میں رکھنے کے لیے متعارف کرایا تھا۔ 1920سے 1940کی دو دہائیوں میں انگریزوں نے ہندوستان کی آزادی کے متوالوں پر لاٹھی چارج کا وسیع استعمال کیا۔ لاٹھی اُس وقت نو آبادیاتی کانسٹیبلری کو دی گئی تھی ، کیونکہ پولیس میں بھرتی ہونے والے زیادہ تر سپاہی کسان طبقے سے تھے اور انگریز اپنے دور حکومت میں اختلاف رکھنے والوں کو کچلنے اور آزادی پسندوں کے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کا آرڈر کرتی تھی۔

تاریخی اعتبار سے ہندوستان میں لاٹھی چارج کا پہلا واقعہ لاہورمیں رونما ہوا تھا۔ لالہ لاج پت رائے انقلابی اور آزادی کے سرفروشوں میں سے تھے۔ 30اکتوبر 1928کو لاہو ر میں سائمن کمیشن کے خلاف ایک پر امن احتجاج کی قیادت کے دوران لاٹھی چارج میں وہ شدیدزخمی ہو ئے اور17نومبر1928میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ بعدازاں وفات اور آزادی اُن کا مجسمہ لاہور میں نصب کیا گیا لیکن افسوس کہ 15اگست 1948کو شملہ منتقل کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

30اکتوبر 1928کو لاہور میں سائمن کمیشن کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بھگت سنگھ بھی شامل تھے۔ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کی اپنی ایک کہانی ہے ۔ بھگت سنگھ نے لاہور کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس مسٹر سانڈرس کو موٹر سائیکل پر دفتر سے نکلنے پر گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ جس کی پاداش میں 23مارچ 1931کو بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزادی گئی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بھگت سنگھ کو لالہ لاج پت رائے کی موت کا دُکھ تھا جس کی بنیادی وجہ وہ لاٹھی چارج ہی تھی ، جس میں لالہ لاج پت رائے شدید زخمی ہوئے تھے۔

لالہ لاج پت رائے غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ 28جنوری 1865میں منشی رادھا کرشن آزاد اور گلاب دیوی کے ہاں ضلع فیروز پور کے گاﺅں ڈھڈیکے میں پیدا ہوئے ۔ اُن کے والد فارسی اور اردو کے بہت بڑے عالم تھے۔ اُن کی والدہ گلاب دیوی نے لالہ لاج پت رائے کی مضبوط اخلاقی تربیت کی ۔ لالہ لاج پت رائے نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1880میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔یہاں اُن کی ملاقات اپنے جیسے مزید آزادی کے متوالوں اور انقلابیوں سے ہوئی ۔جن میں لالہ ہنس راج اور پنڈت گرودت بھی شامل تھے۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1892میں لالہ لاج تپ رائے نے لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس بھی کی۔ چونکہ لالہ لاج پت اَب عملی سیاست میں بھی داخل ہو چکے تھے۔لہٰذ ا وہ کانگریس کے اجلاسوں اور آزادی کے احتجاجوں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔

لالہ لاج پت رائے ایک جہاں دِیدہ انسان تھے۔ وہ لاہور کی صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی کو ایک نیا رُخ دیا۔ اُن کے خلاف انگریزوں نے بغاوت کے الزامات بھی لگائے مگر ثبوت ناکافی ہونے کی وجہ سے گرفتاری سے بچے رہے۔

لالہ لاج پت رائے نے 1921میں لاہور میں سرونٹس آف دی پیپلز سوسائٹی جیسی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی ، جو تقسیم کے بعد دہلی منتقل ہو گئی ۔ لالہ لاج پت نے کئی کتابیں تحریر کیں۔ برما جلا وطن کئے گئے اور پابند سلاسل بھی رہے۔

آج تاریخ میں تین نام ایک دوسرے سے منسلک ہو چکے ہیں ۔ جب کبھی لاٹھی چارج کا تذکرہ یا تاریخ رقم ہو گی لالہ لاج پت رائے اور لاہور کا نام ضرور آئے گا۔ برصغیر میں انگریزوں کی ایجاد لاٹھی چارج کے حوالے سے مہاتما گاندھی اور بہار کے ضلع گورگھاٹ گاﺅں بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ 1934میں مہاتما گاندھی نے جب بہار ضلع کے گورگھاٹ گاﺅں کا دورہ کیا تو گاﺅں والوں نے اُنہیں لاٹھی تحفے میں دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جس پر گاندھی نے کہا کہ وہ صرف ایک شرط پر لاٹھی کا تحفہ قبول کریں گے اور وہ یہ کہ گاﺅں والوں کو قوم کے مفاد میں لاٹھیاں بنانا بند کرنا ہونگی، کیونکہ انگریز اِسے آزادی پسندوں کے خلاف مار پیٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

گاﺅں والے مہاتما گاندھی کی اِس شرط پر راضی ہو گئے ۔ چونکہ اِس وقت گورگھاٹ گاﺅں پورے شمالی ہندوستان کے لیے لاٹھیاں بناتا اور سپلائی کرتا تھا۔ بہر کیف مہاتما گاندھی کے روکنے یا منع کرنے کے باوجود لاٹھی چارج میں کمی واقع نہ ہوئی ۔ انگریز راج میں لاٹھی چارج باقاعدگی سے ہوتا رہا اور اخبارات میں سرخیاں بنتی رہیں۔

برصغیر آزاد ہوا تو انگریز واپس انگلینڈ لوٹ گئے مگر اپنی لاٹھیاں یہیں چھوڑ گئے۔اب وہ لاٹھیاں پاکستانی اور ہندوستانی پولیس کے ہاتھوں میں ہیں بلکہ یہ کہہ لیں کہ پولیس کا زیور ہیں ۔ لاٹھی کیسے پکڑنا ہے ۔ مضبوط گرفت میں لا کر کیسے گھمانا اور احتجاج کرنے والوں کی پشت یا سر میں کیسے مارنی ہے۔ اِس فن میں ہماری اور بھارتی پولیس خوب مہارت رکھتی ہیں ۔ باغوں کے شہر لاہور سے ”سائمن واپس جاﺅ“ جیسے نعرہ پر انگریز راج نے جس لاٹھی چارج کا آغازکیاتھا وہ لاٹھی چارج آج دیسی راج میں بھی ہر طرح کے نعرے پر عوام کو مزہ چکھانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اِس کی زد میں خواتین بھی آتی ہیں ، شاعر ، لکھاری ، وکلاء، بے روز گار ،کلرک ، سیاسی پارٹیوں کے کارکن ، سیاسی قائدین ، ڈاکٹرز ، کسان ،اساتذہ ، طلبہ ، صحافی غرضیکہ ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ لاٹھی چارج کی زد میں آچکے ہیں۔

جواہر لال نہرو نے اپنی ایک سوانح عمری میں لاٹھی چارج کے نام سے پورا ایک باب تحریر کیا ہے۔ پاکستان اور بھار ت میں آج بھی اخبارات میں لاٹھی چارج ہونے پر سرخیوں میں اُس کا تذکرہ آتا ہے ۔ ”انڈیا انڈر دی لاٹھی “ جیسے مضامین نسبتاً بھارت میں زیادہ شائع ہوتے ہیں ۔ بھارت میں جامعہ ملی اسلامیہ دہلی کے طلبہ پر لاٹھی چارج کے دوران ایک مسلم طالبہ نے ساتھی طالب علم کو لاٹھی چارج سے بچانے کے لیے جس طرح آگے بڑھ کر پولیس کو روکتے ہوئے خود لاٹھیاں کھائی تھیں۔وہ منظر دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنا ۔ حبیب جالب کی لاٹھی چارج کے دوران اُتری ایک تصویر بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔
جدو جہد آزادی ہو یا اپنے حقوق کی جنگ ، لاٹھی کا استعمال بھارت میں ہو یا پاکستان ، یہ عمل سفاکانہ ، جابرانہ اور ظالمانہ تھا، ہے اور رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button