Column

صلہ رحمی ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی …..

ہمارے پرانے دوست یعقوب عاطف نے اپنا گیت برسوں پہلے سنا کر آدم زادوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ زندگی پانی کا بُلبلہ سے زیادہ نہیں ،اگر مالک نے زندگی دی تو اِس کی نعمتوں سے لطف اٹھا یعنی کھالے پی لے موج اڑا ۔ اِس گیت سے کسی نے زندگی کی ناپائیداری کے پیغام کو پلے نہیں باندھااپنے مطلب کی بات ”کھا لے پی لے موج اڑا“ کو خصوصی توجہ سے یاد رکھا ، ہم اور آپ ، اگر اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر سطح پر اپنا ہی نہیں ، پرایا اور سرکاری مال کھانے والوں کی بھاری تعداد بآسانی مل جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک خاندان سے لے کر سیاستدانوں اور حکمرانوں تک سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں، سب موت کو بھول کر عارضی اور ناپائیدار زندگی کے غلام بنے ہوئے ہیں حالانکہ دین حق اسلام کا وراثتی نظام واضح ہے لیکن کلمہ حق پڑھنے اور مسلمان کہلانے کے باوجود جائز و ناجائز ہر شے اپنا حق سمجھتے ہیں ، باپ بچوں کو جائیداد بانٹنے میں پسند ناپسند اور من مرضی کا سہارا لیتے ہوئے بالکل نہیں ڈرتا ، بھائی بہنوں کا حق کھانا اپنا فرض سمجھتا ہے ، کہیں بہنیں زور آور ہوں تو وہ بھائی اور اِس کے بچوں کو اِن کا حصہ دینے سے کتراتی ہیں حالانکہ دین حق صلہ رحمی اور پیار و محبت کا پرچار کرتا ہے ہم زندگیوں کو ماہ و سال کے پیمانے پر جانچتے ہوئے سامان سو برس کا اکٹھا کرنے کے قائل ہیں جبکہ حقیقت یہی ہے کہ کسی کو پل کی خبر نہیں، کوئی نہیں جانتاکہ کہ اگلا پل نصیب بنے گا بھی کہ نہیں، سب یہ بھی جانتے ہیں کہ غیب کا علم صرف مالکِ کائنات ہی کو پتہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہماری اور آپ کی جان ہے۔ پھر بھی امید کے ناطے ہر چیز اپنی ہی سمجھتے ہیں ، موجودہ تیز رفتار جدید دور میں پرانی اور حقیقی روایات پس و پشت چلی گئی ہیں اور ہر کوئی دوسرے پر برتری کا خواہشمند ہے ،ہمارے ہر محکمے میں بے ایمانی کا دور دورہ ہے، قانون اور انصاف کے ادارے بھی ایسی بھول بھلیوں میں پھنس چکے ہیں کہ انصاف بھی ہر کسی کو نہیں ملتا ، کسی عدالت میں جائیں درجنوں کیس خونی رشتوں کے درمیان دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسے مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے، اگر کسی مدعی سے سوال کریں کہ مقدمہ کیوں کیا ؟ کیا معاملہ ماضی کی طرح گھریلو اور اپنوں کی پنچائیت میں حل نہیں ہو سکتا ؟ اکثریت کا جواب ملے گا اب بزرگ رخصت ہو چکے پرانی روایات دم توڑ گئیں نیا زمانہ ہے کسی کے پاس دوسرے کی بات سننے کا وقت نہیں، ایسے میں عدالت سے رجوع نہ کریں تو کیا کریں ؟ پھر سوال کریں کیا عدالت سے انصاف مل جائے گا ؟ جواب آئے گا ۔ امید پر دنیاقائم ہے ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتوں میں دیر ہے اندھیر نہیں پھر پوچھیں کب سے مقدمہ بھگت رہے ہیں تو حیران ہو جائیں گے برسوں اِسی خواہش پر ضائع ہو گئے کہ دستاویزات ہمارے پاس ہیں ، آج نہیں تو کل فیصلہ ہو جائے گا۔ میں نے ایک ایسے ہی صاحب سے کہا ، حضور دیوانی مقدمہ اچھے بھلے انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے ؟ مسکرا کر بولے ، وہ تو بنے ہوئے ہیں بڑا بھائی اگر یہ سمجھے کہ وہ بزرگوں کی جائیداد اکیلا ہڑپ کر جائے تو پھر مقدمہ تو بنتا ہے، آئین اور قانون ریاستی ہو کہ اسلامی مذہبی ، کسی کا حق کھانے کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا ہم کیوں اپنا حق چھوڑیں ؟ باپ دادا کامال ہمارا بھی اتنا ہی ہے جتنا بڑے بھائی کا ۔ اِس کے بیوی بچے ہیں تو ہمارے نہیں ؟

اب تازہ ترین کیس ملاحظہ فرمائیں ہمارے ایک واقف کار امریکہ کو پیارے ہو چکے تھے لیکن اِن کا وطن عزیز میں آنا جانا تھا وہ زمانہ شناس بھی تھے اور خاصے چالاک بھی، انہوں نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ دوڑ سے اباجان کی پرانی جائیداد ڈھونڈ نکالی، یقیناً اِس سلسلے میں انہیں پٹواری گردی کا سامناتو کرنا پڑا ہو گا لہٰذا اپنے تجربے اور مشاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے نوٹوں سے اِس کا منہ بھی بند کر دیا ہوگا، اِس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ پٹواری اگر مٹھی میں آجائے تو اِس کی لکھی رپورٹ عدالت عظمیٰ تک غلط ٹھہرائی نہیں جاسکتی ، لہٰذا اِس سید زادے نے بھی من مرضی کا سودا کرنے کے لیے ”پٹواری جن“ قابو کر لیا ، جونہی انہیں فتح یابی حاصل ہو ئی اعلان کر دیا کہ والد محترم کے بے فارم کے مطابق جن بچوں کے نام ہونگے، اِن سے معاملہ طے کیا جائے گا ،باقی کوئی امیدوار نہ بنے ، بہن بھائیوں کو بڑے بھائی کا یہ بیان ایک آنکھ نہیں بھایا ، اِن کا جوابی موقف تھا کہ من مانی نہیں ، فیصلہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے ہم لوگ کچھ لیں یا چھوڑ دیں ، حق سچ کی اصولی بات کی جائے ،لیکن بھائی جان نے رویہ تبدیل نہیں کیا ، اِس لیے کہ اِن کا خیال تھا تمام بھاگ دوڑ اور چھان بین نہ صرف انہوں نے کی بلکہ پٹواری صاحب کی نقد خدمت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ اِس لیے جو کریں گے وہ خود کریں گے کسی کو حق نہیں، بہن بھائی نے ردعمل کا اظہار کیا لیکن بھائی جان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، بات آئی گئی ہو گئی اِس لیے کہ دو بہن بھائی اللہ کی رضا پر راضی تھے کہ اگر حق ہے تو ضرور ملے گا، نہیں تو روز قیامت حساب کتاب ہو جائے گا ۔

دینِ حق اسلام میں وراثت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، خاص طور پر بہن اور بیٹی کے حق کی تاکید کی گئی ہے لیکن آدم زاد ے سب جانتے بوجھتے من مانی کے عادی ہیں، انہیں پتہ ہے زن ، زر، زمین سو فیصد فساد کی جڑ ہیں، پھر بھی احتیاط کرنے کو تیار نہیں ، اِسی سوچ اور خواہش پر ہمارے سید صاحب بھی والد محترم کی زمین حاصل کرنے کی جدو جہد میں مصروف رہے جن سے بنتی تھی اِنہیں سبز باغ دکھائے ، حصہ دینے کا وعدہ بھی کیا ، جن کو پسند نہیں کرتے تھے اِنہیں ٹھینگا دکھا کر اپنا الو سیدھا کیا ۔ اِس سلسلے میں متعدد بار امریکہ سے پاکستان آئے اخراجات برداشت کیے کیونکہ خواہشات کے غلام بن چکے تھے ۔ وراثت کی اصل حقدار بہن جس کی وساطت سے سارا خاندان امریکن بنا اور برسوں سے وہاں مقیم رہا ، اِسے فراموش کر دیا گیا ۔ بھائی جان کو اِس بات پر بھی فخر تھا کہ باپ کی گمشدہ جائیداد نہ صرف تلاش انہوں نے تن تنہاکی، بلکہ مال و دولت سے اِسے اپنا حق بھی ثابت کیا لہٰذا مختار کل وہی ہیں، رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا، پاکستان میں پٹواری مافیا سے رابطے میں رہے اور اِس کی ڈیمانڈ بھی پوری کرتے رہے تاکہ معاملات میں رکاوٹ پیدا نہ ہو ، آخر کار وہ وقت بھی آگیا جب پٹواری نے سبز جھنڈی دکھاتے ہوئے اِنہیں پاکستان فیملی کے ساتھ آکر زمین حاصل کرنے کی دعوت دے دی ، وہ فاتحانہ انداز میں وطن عزیز پہنچ گئے بیوی اور بچے کچھ ساتھ اور کچھ نے تاخیر سے پہنچنا تھا بقول شخصے صرف ایک آدھ روز پہلے میاں بیوی میں اختلاف کے باعث جھگڑا ہوا، ولی عہد نے بھی ماں کا ساتھ دیا ، شور شرابا ، لڑائی جھگڑا بڑھا اور بھائی جان کے پانچ مرتبہ انجیو پلاسٹی زدہ دل نے جواب دے دیا اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے، پچھلی کہانی اختتام کو پہنچی اور اب نئی کہانی جنم لے چکی ہے ، پٹواری اپنا مال ہضم کر چکا ، باقی امیدوار منہ دیکھتے رہ گئے ۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔ دم نکل گیا ،خواہش دل ناتواں میں ہی رہ گئی، اَ ب پورا خاندان ناراضگی کو بالائے طاق رکھ کر جانے والے بھائی جان کی یاد میں آنسو بہا رہاہے، کون ناراض تھا کون خوش؟ اَب سب افسردہ ہیں ، کاش ایسا پہلے ہو جاتا اور بھائی جان بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہو ئے صلہ رحمی کی پابندی کے قائل ہوتے تو شاید زندگی کا مالک رحمان و رحیم انہیں اِنعام میں مزید سانسیں بخش دیتا ۔ اللہ کرے اَب سب بہن بھائی جانے والے کی غلطیاں معاف کردیں اور اِس کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں کیونکہ انسان تو غلطیوں کا پتلا ہے اور مٹی کے اِس پتلے کی آخر ی منزل مٹی ہی ہے۔ میرے مطابق جو ابھی مٹی کے اوپر ہیں وہ مٹی کے نیچے جانے سے پہلے چلے جانے والوں کی لرزشوں کو معاف کر دیں کیونکہ صلہ رحمی اور معاف کرنا بھی ایک بڑاجہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button