Column

تھوڑی سی ذرا کاٹ رہے ہیں

تھوڑی سی ذرا کاٹ رہے ہیں
شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
رشتہ کوئی بھی اس کے پس منظر میں احساس کا ہونا لازمی شرط ہے۔ کیوں کہ احساس نہیں کچھ پاس نہیں۔ احساس ہو تو غیر بھی اپنا، احساس نہ ہو تو اپنا بھی غیر۔
انسان کو سماجی جانور کہا جاتا ہے ( اگرچہ ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسان کو جانور نہیں کہہ سکتے ) وہ مدنی الطبع ہے ۔ دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا۔ کسی گھر میں پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے ساتھ ہی ماں باپ اور بہن بھائی یہ چاروں رشتے اسے خودبخود مل جاتے ہیں۔ اب وہ چاہے یا نہ چاہے ، یہ اٹوٹ رشتے اس کی ذات سے جڑ جاتے ہیں ۔ اب اگر احساس موجود ہو تو یہ رشتے خوب رنگ جماتے ہیں۔ انسان کے دکھ سکھ کے ساتھی ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن اگر احساس کی انمول جذبہ مفقود ہو تو ان کے کم زور میں دیر نہیں لگتی۔
انسان دوستی کے رشتے کو خود اپناتا ہے۔ جس کے ساتھ اس کا جی چاہے ، وہ اسے دوست بناتا ہے، دوستی نبھاتا ہے۔ دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو اختیاری ہوتا ہے۔ انسان اپنے اختیار سے یہ رشتہ اپناتا ہے۔
اپنے مقصد کے لیے کسی دوسرے انسان کو موت کی گھاٹ اتار دینے کی مکروہ سوچ تک پہنچنے میں انسان ہو زیادہ عرصہ نہیں لگا۔ قابیل حضرت آدمٌ کی اولین اولادوں میں ایک تھا۔ وصایت کے لیے اس نے ہابیل کو قتل کر ڈالا۔
نو عمر ٹک ٹاکر ثنا یوسف کا بیہمانہ قتل آج کل پاکستانی قوم کا سب اہم معاملہ ہے۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے دوستی سے انکار کیا تھا۔ اس کی مختلف وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ ان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ۔ کوئی خاص بات بھی نہیں ہے۔ اس کا معروف ہونا اس وجہ سے تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی اور خوب صورت بھی۔ سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز شئیر کرنے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا اور گھر والوں کی رضامندی سے وہ یہ کام کیا کرتی تھی۔ مقتولہ کے والد سید یوسف حسن کے بقول ان کی اکلوتی بیٹی بہت بہادر تھی۔ وقوعے کے بارے وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ میری بہن گلی میں بھاگتی جا رہی تھی اس وقت تک اسے پتہ نہیں چلا کہ وہ لڑکا میری بھتیجی کو گولی مار کر گیا ہے۔ وہ گلی سے کچھ بندوں کو اور نیچے والی بہن کو لے کر اندر گئی اور ثنا کو دیکھا تو لوگوں کو آواز دی اور اسے گاڑی میں ڈالا۔ میری بہن کو ایسا لگا جیسے شاید کوئی غبارا پھٹا ہے جبکہ قاتل نے فرار ہوتے ہوئے وقت مقتولہ کی پھوپھو کو بھی فائر مارنے کی کوشش کی۔ میں اس دن تقریباً گھر کے نزدیک ہی تھا۔ ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب اسے کال آئی اور اس نے مجھے بتایا کہ ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسے ہسپتال لے کر آئو میں ادھر انتظار کرتا ہوں لیکن وہاں پہنچنے پر ڈاکٹر نے تصدیق کر دی کہ ثنا کی وفات ہو چکی ہے۔پھر ہسپتال والوں نے قانونی کارروائی کے لیے ہمیں پمز ہسپتال بھیجا اس وقت تقریباً پانچ بجے کا وقت ہو گا لیکن ہسپتال کی ساری کارروائی مکمل ہوتے تقریباً رات کے 12:30بج گئے جس کے بعد ہمیں میت دی گئی۔ یہ لڑکا کیسے گھر میں داخل ہوا، شاید اس نے ریکی کی ہوگی، مجھے نہیں معلوم۔ میری چھوٹی بہن گھر کے اندر موجود تھیں اور یہ لڑکا سیدھا کمرے میں گیا اور میرے بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارا پھٹا ہے اور وہ یہ دیکھنے کے لیے کیا معاملہ ہوا ہے، بیٹی کے کمرے کی طرف گئیں۔ اسی وقت یہ لڑکا ثنا کے کمرے سے نکل کر باہر آیا اور میری بہن پر پستول تانی مگر اس سے فائر نہیں ہوا۔ اس نے فائر کرنے کی کوشش کی پھر وہ بھاگ کر نیچے چلا گیا۔ میری بہن نے نیچے والوں کو آواز دی، گلی میں جا کر آواز دی کہ ڈاکو آیا ہے اور میرے پر پستول تان کر نیچے گیا ہے۔ اتنی دیر میں ثنا کی ماں بھی پہنچ گئیں جنہیں بیٹی نے خود مارکیٹ بھیجا تھا کہ جائو سرف لے کر آئو عید آ رہی ہے کچھ کپڑے دھونے ہیں۔ قاتل نے اسی موقع سے فائدہ اٹھایا اور اندر آ کر ثنا کو مار کر چلا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں سید یوسف حسن کا کہنا تھا نہیں بالکل نہیں۔ نہ کوئی دشمنی نہ کوئی ایسی بات۔ وہ کہتے ہیں گھوڑے کو بھی میدان میں لاتے ہیں تو تربیت دے کر لاتے ہیں۔ ہم نے بچی کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت دینے سے پہلے اچھی تربیت دی تھی۔ وہ میری بیٹی نہیں میرا دلیر بیٹا تھی۔ وہ بہت دلیر تھی، وہ ایسی چیزوں، دھمکیوں کو کچھ نہیں سمجھتی تھی۔ اس نے ان دھمکیوں کوئی اہمیت ہی نہیں دی ہو گی اسی لیے میرے ساتھ شیئر نہیں کیا ہو گا۔ ثنا کو سوشل میڈیا پر زیادہ وقت نہیں ہوا۔ سال، کچھ مہینے ہوئے۔ وہ سوشل میڈیا پر جو کر رہی تھی مجھے اس پر اعتماد تھا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ وہ میڈیکل کے شعبے میں دلچسپی رکھتی تھی اور اس میں اچھی کارکردگی بھی دکھا رہی تھی۔ میں تو اسے منع کر رہا تھا کہ سی ایس ایس کے لیے کوئی اکیڈمی جوائن کر لو مگر اسے میڈیکل کا شوق تھا۔ میرے دو بچے ہیں۔ میرا بیٹا جو 15سال کا ہے، گائوں میں تھا۔ اور ثنا میری اکلوتی بیٹی تھی ۔
آن لائن کمیونٹیز نے لاکھوں کم عمر نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے اس دور میں متاثر کیا لیکن اس سے پہلے بھی لڑکی کی جانب سے انکار کی صورت میں مرد اس سے ایسے ہی بدلہ لیتے آئے ہیں جیسے ان کے پاس انکار کو برداشت کرنے کی کوئی تربیت ہی موجود نہ ہو۔
ایسڈ سروائیورز فائونڈیشن کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 200سے زیادہ تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں سے 80فیصد کیسز میں مردوں نے خواتین کو نشانہ بنایا، جن میں زیادہ تر انھیں کسی صورت میں انکار کر چکی تھیں۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوان مردوں کی بڑی تعداد ان سے متاثر ہے۔ ثنا یوسف قتل کیس کے بعد پاکستانی ڈراموں میں مردوں، خاص طور پر ہیرو بنا کر پیش کئے گئے مردوں پر بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ ان دنوں پیش کیا جانے والا ڈرامہ من مست قلندر گزشتہ ہفتے زیر بحث رہا جس میں ہیرو اپنی بیوی کو رات کو اس کے بھاگ جانے کے ڈر سے باندھ کر رکھتا ہے جبکہ اسے منفی کردار میں بھی نہیں دکھایا گیا۔ ایک اور ڈرامہ کیسی تیری خود غرضی ایسے ہی ٹاکسک اور مجرمانہ ذہنیت کے ہیرو کی کہانی ہے جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کو مسلسل ہراساں کرتا اور دھونس اور دھمکی کے زور پر اس سے شادی کر کے رومینٹک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گویا ہمارے ڈرامے ہمیں سکھا رہے ہیں کہ لڑکی نہ مانے تو دوبارہ کہو، پھر سے کہو، پیچھے پڑ جائو تو مان جائے گی۔ یہ نہیں سکھا رہے کہ نہیں کا مطلب نہیں، باہمی رضامندی نہیں سکھا رہے، ڈرامہ نگار علی معین کہتے ہیں ہمیں محبت میں انتہا پسندی اور مجرمانہ حرکت کے بیچ انتہائی باریک لائن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ثنا یوسف کا قاتل گرفتار ہو چکا لیکن اس ایک مجرم کے خلاف قانونی کارروائی تب تک ناکافی رہے گی جب تک عورت مخالف سوچ کی نشاندہی اور اصلاح نہیں ہوتی۔ ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس کے ملزم کو گزشتہ بدھ کی صبح ڈیوٹی مجسٹریٹ احمد شہزاد کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی جانب سے ملزم کی شناخت پریڈ کی استدعا کی گئی جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے ملزم کو 14روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ ثنا یوسف کے قتل کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے ثنا یوسف کی جانب سے خود کو بار بار مسترد کیے جانے پر اسے قتل کیا۔
یہ کیس رپیٹیٹو ریجکشن کا تھا۔ ملزم نے ثنا یوسف کو اس لیے قتل کیا کہ وہ بار بار ثنا سے رابطہ کر رہا تھا اور وہ اس کو منع کر رہی تھی۔ وہ گزشتہ کئی دن سے ثنا یوسف سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور دو جون کو بھی اس نے ثنا یوسف کے گھر آ کر سات آٹھ گھنٹے انتظار کیا اور جب ثنا نے اس دن بھی اس سے ملنے سے انکار کیا تو اس نے پلاننگ کی اور اس واردات کو انجام دیا۔ ان کے مطابق دو جون کو ملزم نے شام پانچ بجے ثنا یوسف کے گھر میں گھس کر انھیں دو گولیاں ماریں، ثنا یوسف کی ایک دوست نے بتایا کہ ثنا یوسف نے اپنے کچھ انتہائی قریبی دوستوں کو دعوت دی تھی۔ جس میں، میں بھی شامل تھی مگر میں کسی وجہ سے نہیں جا سکی تھی، جس کا مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔
ثنا یوسف کا قتل معاشرتی میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، تشدد ، عدم برداشت لاقانونیت اور آزاد روی کا مظہر ہے۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ بچیوں کو اتنی زیادہ آزادی نہ دیں، خواہ ان کی بچیاں کتنی ہی بہادر پر اعتماد اور تربیت یافتہ کیوں نہ ہوں ۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملتی رہے تو ایسے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ مجھے اپنے دوست دیوان سید حیدر بخاری یاد آئے۔
کیسا حسب حال شعر ہے کہا ہے
میں نے کہا شہ رگ ہے میری جان رکو تو
کہنے لگے تھوڑی سی ذرا کاٹ رہے ہیں

جواب دیں

Back to top button