حج انتظامات اور حکومتی دعویٰ

حج انتظامات اور حکومتی دعویٰ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
حج 2025ء ختم ہو گیا سعودی حکومت نے اگلے سال کیلئے حج پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے مطابق پرائیویٹ آرگنائزروں نے 21اکتوبر تک منیٰ میں خیموں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات سعودی وزارت حج کو بھیجنے ہوں گے۔9دسمبر تک حج خدمات اور معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے وزارت مذہبی امور کو حج ختم ہونے کے چھ ہفتے بعد نئی حج پالیسی کا اعلان کرنے کا حکم دے رکھا ہے جس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کے دعوئوں کے باجود مشاعر مقدسہ میں سرکاری اسکیم میں جانے والے حجاج کرام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا اختصار سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ستاون مسلم ممالک کے حجاج فریضہ حج کی سعادت کے لئے جاتے ہیں ۔ سوال ہے پاکستان کے عازمین حج کو پورے واجبات ادا کرنے کے باوجود کیوں مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کالم میں جن مسائل کا ذکر کیا جارہا ہے ان میں حجاج کا قربانی کے لئے واجبات کی ادائیگی، کھانے کے واجبات اور دوران قیام عزیزیہ میں جن مشکلات سے عہدہ برآ ہونا پڑا۔ مسلم لیگ نون کی گزشتہ حکومت میں سردار محمد یوسف وزیر مذہبی امور تھے جنہوں نے سرکاری اسکیم میں جانے والے تمام عازمین حج کے لئے قربانی کے واجبات لازمی طور پر حج واجبات کے ساتھ جمع کرانے کا اعلان کیا تو اس ناچیز نے اس اقدام کے خلاف دو کالم لکھے جن میں وزیر موصوف کی توجہ دلائی گئی تھی قربانی کا تعلق حاجیوں کی ذات سے ہے اور ہر عازم حج نے اپنے طور پر قربانی کرنا ہوتی ہے لہذا وہ عازمین حج سے کیسے قربانی کے واجبات وصول کر سکتے ہیں۔ چنانچہ میرے کالموں کے بعد وزارت مذہبی امور نے عازمین حج کے لئے قربانی کے واجبات آپشنل کر دیئے تھے اگر کوئی عازم حج سرکاری طورپر قربانی کے واجبات جمع کرانے کا خواہاں ہو تو کرا سکتا ہے ورنہ حجاج اپنے طور پر قربانی کی رقوم سعودی بنکوں میں جمع کرا سکتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ وزارت مذہبی امور کے ٹھیکیداروں نے تمام عازمین حج سے قربانی کی رقم وصول کرنا شروع کر دی جو کلی طورپر غلط اقدام ہے۔ سوال ہے جب سعودی بینکوں میں پوری دنیا سے آنے والے حجاج قربانی کی رقم جمع کرانے کے بعد ٹوکن حاصل کرتے ہیں جس پر احرام کھولنے کا وقت تحریر کیا ہوتا ہے اس کے باوجود وزارت مذہبی امور عازمین حج سے قربانی کی رقوم جبری طور پر کس قانون کے تحت وصول کرتی ہے؟ میرے پاس آنے والی ویڈیوز میں کھانے کے بارے میں حجاج کرام نے جن شکایات کا ذکر کیا ہے اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک نئی کمپنی سے پہلی مرتبہ سرکاری سکیم کے حاجیوں کے کھانے کا معاہدہ کرنے کی کیا تک تھی؟ سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں سوکھی روٹی کا تصور نہیں کیا جا سکتا اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کو مہیا کی جاتی رہی ہیں۔ کھانے کے غیر معیاری ہونے کی شکایات کی ویڈیو ہم نے سیکرٹری مذہبی امور کو بھیجی لیکن انہوں نے جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ وہ جواب بھی کیا دیتے انہیں اپنی وزارت اور حج مشن کی کارکردگی بارے اچھی طرح آگاہی ہو چکی ہو گی۔ یہ ناچیز حق بات لکھنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتا ہم کوئی غلط بیانی سے کام لیں گے تو حق تعالیٰ کی پکڑ ہو گی لہذا جو بات لکھی جا رہی ہے وہ حقائق پر مبنی ہے اگر کہیں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے تو وزارت مذہبی امور کو حق حاصل ہے اس کی وضاحت کرے۔ بلڈنگ نمبر 822کے حجاج نے شکایت کی ہے ایک لاکھ روپے جمع کرانے کے باوجود انہیں علیحدہ کمرہ فراہم نہیں کیا گیا جو مبینہ طور پر بدانتظامی کی واضح مثال ہے۔ حجاج کی رہائشی عمارات میں خدمات یعنی پانی بجلی اور صفائی کی سروس یا تو عمارت فراہم کرنے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے ورنہ اگر حج مشن نے عمارات دینے والے سعودی مستاجروں سے خدمات کا معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں حج مشن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے وہ حجاج کی قیام گاہوں میں مطلوبہ سہولتوں کا بندوبست کرے۔ عجیب تماشا ہے حاجیوں کے واش رومز کے باہر پانی جمع ہونے سے انہیں وضو او ر طہارت کے لئے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض عمارات سے سیلنگ حاجیوں کے اوپر گرتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ گو حجاج کی اتنی بڑی تعداد کے لئے انتظامات میں کمی کا رہ جانا قدرتی بات ہے سوال ہے حجاج کرام پر نئے نئے تجربات کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ پہلے پرائیویٹ گروپ آرگنائزر منیٰ میں خیموں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات براہ راست سعودی کمپنیوں کو بھیجا کرتے تھے جس سے انہیں انتظامات کرنے میں خاصی آسانی تھی۔ یہ بات درست ہے سعودی وزارت حج نے پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو مشاعر کے اخراجات پاکستان حج مشن کو بھیجنے کو کہا ہے۔ سوال ہے وفاقی وزیر مذہبی امور اور سیکرٹری مذہبی امور ہر سال رجب میں سعودی حکومت سے معاہدات کے لئے سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں کیا وہ اس سلسلے میں سعودی حکام سے بات چیت نہیں کر سکتے کہ پرائیویٹ سکیم کے حجاج کے منیٰ کے واجبات براہ راست سعودی کمپنیوں کو بھیج دیں تو کیا حرج ہے؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں سعودی عرب میں چاہے حجاج کے لئے کھانے کا انتظام کیا جائے یا رہائشی عمارات کرایوں پر حاصل کی جائیں کمشن کے پہلو کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا۔ چند سال قبل کیٹرنگ کمپنی سے معاہدہ کرنے میں مبینہ طور پر لین دین کی شکایات منظر عام پر آئیں تھیں۔ ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں امسال کیٹرنگ کا معاہدہ کرتے وقت مبینہ کمیشن کا عمل دخل رہا ہے ورنہ کیٹرنگ کمپنی حجاج کرام کو غیر معیاری کھانا فراہم کرنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی۔ جیسا کہ سعودی حکومت نے آئندہ سال کے لئے حج پالیسی کا اعلان کیا ہے پاکستان کو بھی حج پالیسی کے اعلان میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ آئندہ ریگولر اور پرائیویٹ سکیم میں جانے والے عازمین حج کو حج درخواستیں بیک وقت دینے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ امسال عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد حج سے محروم رہ گئی ہے مستقبل قریب میں اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔