عیدالاضحی: قرب الٰہی کی علامت

عیدالاضحی: قرب الٰہی کی علامت
تحریر : ایم قاروق قمر
تہوار کسی بھی تہذیب و معاشرت کا حُسن ہیں، جو اپنے اندراَن گنت خوشیاں، احساسات و جذبات اور رنگوں روشنیوں کی اِک قوسِ قزح سی سمیٹے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ’’ عیدین ‘‘ کی صُورت خصوصی تحفے، انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے۔ ویسے تو مختلف مذاہب کے ماننے والیبہت جوش و خروش سے اپنے قومی و مذہبی تہوار مناتے ہیں، لیکن ان کا اور ہمارا تہوار منانے کا طریقہ و بنیاد یَک سر مختلف ہے۔ ہمارے دونوں ہی تہواروں کا تعلق نیت، نیکی اورثواب سے جُڑا ہے۔
عیدالاضحیٰ کا دن درحقیقت خلیل اللہ حضرت سیدنا ابراہیمٌ کی یاد تازہ کرتا ہے اس دن اہل ایمان خلیل اللہ کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ،ان کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے رب کی خوشنودگی کیلئے قربانی کا جانور پیش کرکے رب کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں ۔ عید الاضحی کی بنیاد ہی ایثار و محبّت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔ یہ دن حضرت ابراہیم ٌکی اللہ سے لا زوال محبّت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِ نظر، حضرت اسماعیلٌ کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللہ کی اطاعت اور والد کی محبّت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔
اسی لیے اقبال نے کہا تھا کہ
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت
سکھانے کش نے اسماعیلٌ کو آداب فرزندی
پھر اللہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیّتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنّت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔ قربانی دَر اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے ربّ کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خداوندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔
قر آنِ کریم میں ارشاد ہے، ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اُسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ ’’ سورہ الحج، آیت نمبر: 37)
اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہے۔ تاجدار کائناتؐ نے سنت ابراہیمی یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقویٰ پر زور دیتا ہے، قربانی اور تقویٰ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عیدالاضحیٰ کے تین دن ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے، جو رویائے صادقہ پر منشائے خداوندی سمجھتے ہوئے حضرت ابراہیمٌ اور حضرت اسماعیلٌ نے پیش کی تھی۔ خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دِل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مقصود ان جانوروں کا خون یا ان کا گوشت نہیں بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کس قدر یقین رکھتے ہیں، اس کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقتِ ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں؟، تقویٰ کی صفت اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے اور اسی سے انسان نیک اعمال کو ترجیح دے کر انھیں اختیار کرتا ہے، اگر کوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتا ہے تو وہ خالص اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِ قرباں پر پورے جوش و خروش سے سنّتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحیٰ کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِ قرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کی گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس اس تہوار کی اصل روح ، تزکیہ نفس ہے ، نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیّت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمود و نمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللہ کے یہاں مقبول نہیں کہ باری تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر غریبوں، مسکینوں اور غریب رشتے داروں کو بھی یاد رکھیں کیونکہ ان کا بھی خوشیوں پر حق ہے کیونکہ وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ سوچیں کہیں آپ کی قربانی جذبہ ایثار اور خلوص سے تو خالی نہیں اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا، خواہشات نفس کی بھی قربانی کر دیں۔ عیدالاضحیٰ کا مقصد بھی جذبہ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہی قربانی ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضی کو ترجیح دیں۔ اسی طرح سے انفرادی کوشش کو اپنا فرض جانیں۔ ہم اس سچائی کو فراموش کر چکے ہیں کہ خالق کائنات کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جاتا ہے۔ عیدالاضحیٰ کا تہوار یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ہے، یعنی ہمیں صرف مال و زر ہی خرچ نہیں کرنا ہے، بلکہ اپنے اندر قربانی کی اصل روح بھی بیدار کرنی ہے جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے۔