Column

عیدالاضحی اور فلسفہ قربانی

عیدالاضحی اور فلسفہ قربانی
دُنیا بھر سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مسلمانوں نے گزشتہ روز حج کی عظیم سعادت حاصل کی، تمام حجاج کرام کو حج اور پورے عالم اسلام کو ’’ جہان پاکستان فیملی’’ کی جانب سے عید کی بہت بہت مبارک باد۔ آج پاکستان سمیت دُنیا کے مختلف ملکوں میں عیدالاضحیٰ منائی جارہی ہے۔ ملک بھر میں نماز عید کے اجتماعات منعقد ہوں گے، جن میں ملک و قوم کی ترقی، سلامتی اور خوش حالی کی دعائیں کی جائیں گی۔ وطن عزیز میں لاکھوں مسلمان قربانی کا فریضہ ادا کریں گے۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے موقع پر خصوصی طور پر اُن لوگوں کو ضرور یاد رکھا جائے جو مالی طور پر کمزور ہیں اور گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عیدین محبت اور یگانگت کا درس دیتی ہیں۔ عید کے موقع پر غرباء اور مساکین کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جس حد تک ممکن ہوسکے، ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا چاہیے۔ اپنے رشتے داروں میں اگر کوئی مالی طور پر مشکلات کا شکار ہے تو اُس کی اس طرح مدد کی جائے کہ اُسے گراں نہ گزرے اور اُس کی مشکل بھی حل ہوجائے۔ دین ہمیں دوسروں کے کام آنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام وہ آفاقی مذہب ہے، جس نے انسانیت کو سب پر مقدم رکھا ہے۔ مسلمانوں کو اس موقع پر اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دشمن وطن عزیز کے خلاف ریشہ دوانیوں میں پہلے بھی مصروف تھا، اب زیادہ تیزی کے ساتھ سازشیں رچا رہا ہے، گزشتہ ماہ معرکہ حق میں اُس کو منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ اُس وقت تو اُس کی ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔ اب اور زیادہ تیزی کے ساتھ وطن عزیز کے خلاف سازشوں میں لگا ہوا ہے۔ اُس کے توڑ کے لیے اتحاد و اتفاق ازحد ضروری ہے۔ فلسطین لہو لہو ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل وہاں پچھلے 20ماہ سے بدترین مظالم ڈھارہی ہے۔ 50ہزار سے زائد بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ فلسطین میں صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ امام کعبہ نے اپنے خطبۂ حج میں فلسطین کے بے گناہ مسلمانوں خصوصاً بچوں اور خواتین کیلئے خصوصی دعا فرمائی۔ مسجدالحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے کہا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دُور رہو، اللہ نے نیکی کرنے اور برائی سے دُور رہنے کا حکم دیا۔ امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، تقویٰ دنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب ہے، حیا ایمان کی شاخ ہے، والدین سے ہمیشہ صلہ رحمی سے پیش آئو اور کثرت سے گناہوں کی معافی مانگو، اللہ نے جنت کی طلب کرو اور جہنم سے نجات طلب کرو۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا، اے ایمان والو! اللہ کی عبادت ایسے کرو کہ جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، یا پھر اللہ کی عبادت اس طرح سے کرو کہ جیسے اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کو معاف کرنا بھی نیکی ہے، نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں لہٰذا نیکیوں کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، نماز قائم کرو، یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک بہترین رابطہ اور سب سے زیادہ درمیان کی نماز کی حفاظت کرو، اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ان کا کہنا تھا، انسان کو باطنی امراض سے بچنا چاہیے، کیونکہ باطنی امراض کی وجہ سے انسان اللہ کا تقرب حاصل نہیں کرپاتا، رمضان کے روزے تم پر فرض کیے گئے، جیسے تم سے پچھلی امتوں پر فرض کیے گئے، روزے انسان کو باطنی امراض سے پاک کر دیتے ہیں۔ خطبہ حج میں کہا گیا کہ دین اسلام کے 3درجات ہیں، جس کا اعلیٰ درجہ احسان ہے، دوسرا درجہ ایمان کا ہے، جو زبان سے اقرار، دل سے یقین اور اعضا سے عمل کرنا ہے، ایمان کی شاخیں 70 سے زائد ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنا اعلیٰ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا سب سے نچلا ہے۔ شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے کہا کہ اے ایمان والو، عہد اور وعدے کو پورا کرو، جب بھی بات کرو اچھی بات کرو، اللہ صبر کرنے والوں کو پورا ثواب عطا کرتا ہے، اللہ کا شکر گزار بندوں سے وعدہ ہے کہ جتنا شکر کریں گے انہیں زیادہ نعمتوں سے نواز دے گا۔ امام کعبہ نے خطبہ حج میں فلسطین کے مسلمانوں کے لیے خصوصی دعا کرتے ہوئے کہا، اے اللہ، فلسطین میں ہمارے بھائیوں کا خیال رکھ، ہمارے فلسطینی بھائیوں کی بھوک، مصائب اور تکالیف کا خاتمہ فرما، اے اللہ، فلسطین کے بے گھروں کو آسرا دے، انہیں امن عطا کر، دشمنوں کے شر سے نجات دے، اے اللہ! فلسطین میں ہمارے بھائیوں کو دشمن پر غالب فرما۔ اے اللہ، مسلمانوں کے حکمرانوں کو بھلائی کی توفیق دے، انہیں ہدایت اور تقویٰ عطا فرما۔ دوسری جانب حج کے رکن اعظم کی ادائیگی کے لیے لاکھوں عازمین میدان عرفات پہنچے، جہاں انہوں نے ظہر اور عصر کی نمازیں قصر و جمع کی صورت ادا کیں اور خطبہ حج سنا جو مسجد نمرہ میں دیا گیا۔ خطبہ حج اردو سمیت درجنوں زبانوں میں نشر کیا گیا۔ حجاج نے میدان عرفات میں سارا دن عبادات میں گزارا اور پھر مغرب سے قبل حجاج کرام مزدلفہ کی طرف روانہ ہوگئے، جہاں انہوں نے مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھی ادا کی اور رات کھلے آسمان تلے گزاری۔ مزدلفہ میں حجاج کرام نے رمی جمرات ( شیطان) کے لیے کنکریاں جمع کیں۔ جمعہ کی صبح حجاج کرام واپس منٰی روانہ ہوگئے اور رمی جمرات کی، جس کے بعد قربانی کی گئی اور احرام کھول دیا گیا، جس کے ساتھ ہی فریضہ حج مکمل ہوا ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں حج کی عظیم سعادت ملی۔ بڑے ہی روح پرور مناظر تھے۔ فلسطین کے مظلوم مسلمان اس وقت دعائوں کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ خطبہ حج میں کہی گئی باتوں پر تمام مسلمانوں کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔ امام کعبہ نے بڑی مفید باتیں کہی ہیں اور یہی کامیابی اور فلاح کے راستے پر لے کر جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان پر تہہ دل سے عمل کریں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو عیدین خوشیوں کے مواقع ہوتے ہیں۔ ان میں خصوصی پیغام پنہاں ہے۔ امت مسلمہ کو ان پیغامات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فلسفہ قربانی اور اس کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ آپس میں اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھائیں۔ پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں۔ اپنے اخلاق کو بہتر بنائیں۔ دوسروں کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں۔ اگر کسی کے ساتھ تعلقات خراب ہیں تو عیدالاضحیٰ ایسا موقع ہے کہ اس کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے پہل کریں اور اپنے اُس مسلمان بھائی کے ساتھ صلح کے لیے قدم بڑھائیں۔ دوسروں کے لیے دلوں سے کدورتیں دُور فرمائیں۔ دینی تعلیمات پر عمل کریں۔ ملک و ملت کی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں۔ عید پر غرباء کا خصوصی خیال رکھیں۔
پاکستان: غربت کی شرح میں اضافہ
پچھلے 7؍8سال کے دوران وطن عزیز میں غربت کی شرح میں ہولناک اضافے دیکھنے میں آئے ہیں اور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے، بلکہ اب بھی پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ 2018ء کے وسط کے بعد سے سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں اور فیصلوں سے ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ غریبوں کو ملک کی تاریخ کی بدترین گرانی سے واسطہ پڑا، جو ہولناک مہنگائی 2035۔40میں قوم کا مقدر بننی تھی، وہ وقت سے کئی سال پہلے ہی ان کے نصیب میں جان بوجھ کر لکھ دی گئی۔ ناقص فیصلوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاکستانی روپے کو جان بوجھ کر پستیوں میں دھکیلا گیا۔ اُس کو روز بروز تیزی سے بے وقعت کرنے کی روش اختیار کی گئی۔ ڈالر اسے ہر بار چاروں شانے چت کرتا رہا۔ اس وجہ سے گرانی تین، چار گنا بڑھی۔ ہر شے کے دام آسمان پر جاپہنچے معیشت کے پہیہ کو جام کرنے کی حکمت عملی نے ناصرف بے روزگاری کا طوفانِ بدتمیزی بپا کیا بلکہ ملک کو ترقی معکوس کا شکار کر ڈالا۔ گو کرونا وبا کے بھی کچھ اثرات تھے، لیکن اس عالمی وبا سے وطن عزیز اتنا زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا کہ اُس کی معیشت ہی زمین بوس ہوجاتی۔ یہ یہاں راج کرنے والوں کی ناقص حکمت عملی کا شاخسانہ تھا، جس کا خمیازہ غریب آج تک بھگت رہے ہیں۔ اُس وقت متوسط کہلانے والے گھرانے خطِ غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ چھوٹے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے۔ گو پچھلے سوا سال سے زائد عرصے کے دوران موجودہ شہباز حکومت نے احسن اقدامات کرکے صورت حال کو خاصا سنبھالا دیا ہے، لیکن سابقین کے کیے کے بداثرات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ غربت کی شرح ملک میں اب بھی بڑھ رہی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 39.8سے بڑھ کر 44.7فیصد ہوگئی ۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں یومیہ 4.20 ڈالر آمدن سے کم کمانے والے غربت کی لکیر سے نیچے شمار کیے جاتے ہیں، پہلے غربت کا پیمانہ 3.65ڈالر یومیہ آمدن تھا۔ عالمی بینک نے بتایا کہ نئے معیار کے تحت پاکستان کی 44.7فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جب کہ پرانے پیمانے پر غربت کی شرح 39.8فیصد تھی، نئے طریقہ کار کے مطابق 10کروڑ 79لاکھ پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔ پاکستان میں یومیہ 1200روپے سے کم کمانے والے افراد غریب کہلائیں گے جبکہ غربت کا تجزیہ پرانی مردم شماری 19۔2018 کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ مزید کہا گیا کہ حکومت نے تاحال نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کیے، تاہم پاکستان کی 16.5فیصد آبادی انتہائی غربت کی لپیٹ میں ہے، انتہائی غربت کا شکار افراد کی تعداد 3کروڑ 98لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ 44فیصد سے زائد آبادی کا غربت کا شکار ہونا لمحہ فکر ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ موجودہ حکومت کو غربت کی شرح میں کمی لانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button