Column

غیرقانونی تعمیرات اور حکومتی دعویٰ

غیرقانونی تعمیرات اور حکومتی دعویٰ
تحریر : امتیاز عاصی
حکومت خواہ کسی جماعت کی ہو غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کا ناسور ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ پی ٹی آئی سے مسلم لیگ نون کے دور کا جائزہ لیا جائے تو غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ متعلقہ ادارے چند روزہ آپریشن کے بعد چپ سادھ لیتے ہیں جس کی وجہ اداروں میں کام کرنے والے افسران اور ملازمین کی مبینہ ملی بھگت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کا کام ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے طور پر غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے خاتمے کے لئے پر عزم ہیں۔ سوال ہے حکومت آئے روز نئے آرڈننس کا اجراء کرتی رہتی ہے غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے دھندے میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دینے کے لئے فوری طور پر آرڈننس کا اجراء نہیں ہو سکتا؟۔ وفاق اور پنجاب میں بغیر نقشہ پاس کرائے رہائشی علاقوں میں پلازوں کی تعمیر سے متعلقہ ادارے لا علم ہیں؟۔ بالکل نہیں یہ تمام دھندے سرکاری محکموں کے افسران اور ملازمین کی مبینہ ملی بھگت سے ہوتے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں پلازوں کی تعمیر کا دھند ہ عروج پر ہے جو کوئی اس دھندے میں ملوث ہے پلازہ تعمیر کرنے کے فوری بعد فروخت کرتا ہے جس کے بعد اگلے پلازوں کی تعمیر جاری رہتی ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کے دھندے میں ملوث بعض افراد نے سیاسی جماعتوں سے تعلق کا لبادہ اوڑ رکھا ہے جن میں سے بعض کی پشت پناہی سیاسی لوگ کرتے ہیں ایسے میں غیر قانونی تعمیرات کے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کون کرے؟ کچھ اسی طرح کی صورت حال وفاقی دارالحکومت میں ہے غیر قانونی تعمیرات کا دھندہ عروج پر ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے نے کشمیر ہائی وے پر غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے شادی ہال کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ تعجب ہے راولپنڈی کے پوش علاقے سیٹلائٹ ٹائون میں کئی کئی منزلہ پلازے بغیر نقشہ پاس کرائے غیر قانونی طور پر تعمیر کئے جا رہے ہیں جب کہ متعلقہ اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے متعلقہ اداروں کے ملازمین ان غیر قانونی تعمیرات کے عوض باقاعدہ بھتہ لیتے ہیں اگر وہ ایسی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں تو بعض حکومتی اراکین ان کے راستے میں دیوار بن جاتے ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کا طریقہ کار یہ ہے وہ دن رات تعمیراتی کام جاری رکھتے ہیں تاکہ کوئی شہری ان کے اس غیر قانونی دھندے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ رہائشی علاقوں میں پانچ سے چھ منزلہ پلازوں کی تعمیر کے باوجود متعلقہ اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ نے کچھ عرصہ قبل قبضہ مافیا اور غیر قانونی تعمیر ا ت کے خلاف کارروائی کے لئے ایک نئی فورس کے قیام کا اعلان کیا تھا عملی طور پر کچھ سامنے نہیں آسکا ہے۔ حیرت اس پر ہے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر جن کے ماتحت بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں غیرقانونی دھندے میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ راولپنڈی جیسے پوش علاقے میں رہائشی مکانات کو گرا کر کاروباری نقطہ نظر سے بغیر نقشہ پاس کرائے کاروباری مراکز قائم ہو رہے ہیں۔ کمرشل ایریا میں تجاوزات مافیا کا راج ہے شہریوں کو وہاں سے گزرنا محال ہو چکا ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے چند روز ہ آپریشن کا ڈرامہ لگانے کے بعد خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ عجیب تماشہ ہے تجاوزات کے خلاف آپریشن سے قبل متعلقہ افراد کو مطلع کر دیا جاتا ہے چنانچہ جب تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والا عملہ موقع پر پہنچتا ہے تو سڑکیں اور برآمدے خالی ہو چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی آپریشن کرنے والا عملہ واپس جاتا ہے تجاوزات مافیا پھر سرگرم ہو جاتا ہے۔ ایک ذرائع نے ہمیں بتایا صرف راولپنڈی میں کمرشل سینٹر کے ایریا سے تجاوزات مافیا سے کروڑوں روپے بھتہ جمع ہوتا ہے جو بعد ازاں مبینہ طور پر افسران اور ملازمین میں بانٹ لیا جاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے شہر کے پوش علاقوں کی گلیاں کوڑے کرکٹ سے بھری پڑی رہتی ہیں۔ اگلے روز
ایک سٹریٹ سے مہینوں بعد ویسٹ اٹھا جا رہا تھا۔ ایک مصدقہ ذرائع نے ہمیں بتایا سینٹری ورکرز سے باقاعدہ ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے یہاں تک اگر انہیں رخصت لینا ہو تو بھی انہیں نذرانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں ندی نالوں کے کناروں پر واقع سرکاری اراضی پر تعمیرات جاری ہیں۔ چند سال قبل آر ڈی اے نے راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر کو دریائے سواں کے کناروں پر واقع اراضی کی نشاندہی کے لئے مراسلہ لکھا تھا جس پر ابھی تک کاروائی نہیں ہو سکی ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہیں تو انہیں فوری طور پر آرڈننس کا اجراء کرنا چاہیے جس میں غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز بنانے والوں کو زیادہ سے قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزائیں ہونی چاہیں ورنہ اگر معاملات ویسے ہی چلنے ہیں تو غیرقانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کا دھندہ کبھی ختم نہیں ہو گا بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہو تا جائے گا۔ پاکستان کا مقابلہ دوسرے ملکوں سے کیا جائے تو ہماری ناکامی کا سب سے بڑا سبب قانون کی عمل داری کا فقدان ہے۔ قانون کی موجودگی کے باوجود غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کی روک تھام میں ناکامی کو حکومتی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے ۔ غیر قانونی تعمیرات اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے دھندے کو ختم کرنا مقصود ہے تو آرڈننس کا اجراء کرکے اس غیر قانونی دھندے میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دی جائیں تو یہ بات یقینی ہے نہ غیر قانونی تعمیرات نہ ہی ہائوسنگ سوسائٹیز کا کام جاری رہے گا۔ پنجاب اور وفاق میں رہنے والے تجاوزات مافیا اور غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں سے عاجز آچکے ہیں۔ وفاقی اور پنجاب کی حکومت عوام کی خدمت اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہیں تو انہیں فوری طور پر ان عوامی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ نون پہلے ہی عوام کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے لہذا اگر اسے اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا مقصود ہے تو غیر قانونی تعمیرات ، ہائوسنگ سوسائٹیز اور تجاوزات مافیا کے خلاف ملک گیر آپریشن کرنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button