Column

مشکلات مقدر نہیں لمحاتی امتحان ہوتی ہیں

مشکلات مقدر نہیں لمحاتی امتحان ہوتی ہیں
تحریر : شیر افضل ملک
دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں وقت ایک ایسا عنصر ہے جو نہ رکتا ہے، نہ جھکتا ہے۔ یہ اپنی رفتار میں مسلسل ہے اور ہر لمحہ نئی کروٹ لیتا ہے۔ انسانی زندگی کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی بہار کی دلکشی بکھیرتا ہے تو کبھی خزاں کی بے رنگی مسلط کر دیتا ہے مشکل وقت، خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ لگے، درحقیقت عارضی ہوتا ہے، یہ نہ تو ازلی ہے اور نہ ہی ابدی۔ یہی وہ حقیقت ہے جو انسان کو امید، حوصلہ اور صبر کے ہتھیار فراہم کرتی ہے۔ مشکل وقت انسان کی زندگی میں آزمائش بن کر آتا ہے بعض اوقات یہ آزمائش ظاہری حالات کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مالی تنگی، بیماری، حادثات یا تعلقات کی الجھنیں اور بعض اوقات یہ آزمائش باطنی اضطراب، تنہائی، احساسِ کمتری یا مقصدیت کے بحران کی شکل میں انسان کو جکڑ لیتی ہی۔ تاہم، تاریخ، تجربہ اور الہامی ہدایت یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی رات ہمیشہ کیلئے نہیں رہتی، اور ہر تاریکی کے بعد روشنی کا ظہور یقینی ہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ یعنی بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔
یہ آیات فقط تسلی نہیں، بلکہ وعدہ ہیں کہ ہر دشواری کے بعد سہولت کا راستہ نکلتا ہے دنیا کے عظیم مفکرین، اہلِ قلم، اور پیغمبرانِ حق نے بھی اسی پیغام کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ مشکل وقت کے دوران انسان کا رویہ اس کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ جو لوگ مشکلات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں، وہ اندر سے شکست کھا جاتے ہیں۔ لیکن جو افراد ان مشکل حالات کو چیلنج کے طور پر لیتے ہیں اور عزم و استقامت کے ساتھ اس کا سامنا کرتے ہیں، وہی تاریخ کے صفحے پر روشن مثال بن جاتے ہیں۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا، مشکلات وہ چیزیں ہیں جو انسان کو خود اس سے روشناس کراتی ہیں۔ انسان کی زندگی کسی سیدھی اور ہموار لکیر کا نام نہیں، بلکہ یہ تضادات، تنائو اور تجربات کی ایسی کثیر الجہتی کائنات ہے جہاں سکون محض ایک لمحاتی احساس اور بحران ایک مستقل حقیقت ہے۔ انسان نہ تو سراپا راحت ہے اور نہ ہی مطلق مصیبت، بلکہ وہ ایک مسلسل جدوجہد کرنے والا شعور ہے، جو ہر لمحہ آزمائش اور امید کے درمیان جھولتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی اصل تعیناتی آزمائش کے میدان میں ہوتی ہے۔ سقراط نے کہا تھا:اور جب ہم اس امتحانی زندگی کو آزمائش کی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو صبر اور استقامت اس کا واحد فکری اور روحانی جواب بن کر سامنے آتے ہیں۔ ارسطو کے نزدیک انسان ’’ عاقل حیوان‘‘ ہے لیکن جب عقل کو آزمائش درپیش ہو تو وہ یا تو فضیلت (virtue)کی جانب مائل ہوتا ہے یا پھر کمزوری اور شکست کی طرف۔ اسلام کے تصورِ انسان میں انسان فطرتاًضعیف اور جُز وقتی خواہشات کا اسیر ضرور ہے، مگر وہی انسان ’’ احسن تقویم‘‘ کا مظہر بھی ہے، بشرطیکہ وہ مصائب کے دوران اپنی اصل کو پہچان لے۔ قرآن مجید میں انسانی آزمائش کا ذکر محض اخلاقی تذکیر نہیں، بلکہ ایک فلسفیانہ مظہر ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ ربّ العزت فرماتا ہے ’’ یقیناً ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا‘‘۔
یہ ’’ کبد‘‘ درحقیقت انسانی زندگی کی فلسفیانہ تصویر ہے، جہاں انسان اپنی شناخت مقصد، اور منزل کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے یہی تلاش، یہی اضطراب، اور یہی جستجو صبر و استقامت کا نقطہ آغاز بنتی ہے۔ صبر کی تعبیر کو محض جذباتی برداشت تک محدود کرنا اسکے مفہوم کی توہین ہے۔ صبر ایک ماورائی کیفیت ہے جو انسان کو حوادثِ زمانہ کے اثرات سے آزاد کر کے اُسے خودی کی معراج تک لے جاتی ہے۔ صبر وہ داخلی نظم ہے جو انسان کو خارجی ابتلائوں کے باوجود منتشر نہیں ہونے دیتا۔ یونانی رواقیت کا بنیادی اصول یہی تھا کہ ’’ تمہارا اختیار صرف تمہارے ردعمل پر ہے، نہ کہ واقعے پر‘‘۔ اسلامی فلسفہ اس اصول کو عرفان و توکل سے جوڑ کر صبر کو عبادت، فہم اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
مولانا روم نے فرمایا: ’’ صبر کن بر تلخی تقدیر، اے پسر / گر نچشدی تلخ، کی گردی شکر!‘‘ ( ترجمہ: اے بیٹے! تقدیر کی تلخی پر صبر کر، اگر تُو تلخی نہ چکھے تو شکر کی مٹھاس کیسے پائے گا؟)۔
استقامت، صبر کی وہ ارتقائی شکل ہے جہاں انسان نہ صرف خود کو سنبھالنے کا ہنر سیکھتا ہے بلکہ حالات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شخصیت شعور سے، شعور بصیرت سے، اور بصیرت روح سے جُڑ جاتی ہے۔ استقامت کا سب سے حسین مظہر انبیائٌ کی حیاتِ مبارکہ میں ملتا ہے، خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکی دور، جس میں ظلم، تنہائی، اور تشدد کے باوجود نہ صرف توکل قائم رہا بلکہ دعوتِ حق کی روشنی بھی فروزاں رہی۔ یہ استقامت دراصل وحی کی روشنی سے منور انسان کی اس فکری پختگی کا نتیجہ ہے جس کا اظہار اقبال نے ان الفاظ میں کیا:ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ؍ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
جدید دنیا نے انسان کو بے شمار آسائشیں تو دے دی ہیں مگر روح کی وہ گہرائی چھین لی ہے جو اُسے صبر اور انتظار کے ذوق سے آشنا کرتی تھی۔ ہر شے فوری درکار ہے، خوشی، کامیابی، محبت، حتی کہ روحانی سکون بھی۔ یہ لمحاتی خواہشیں انسان کو مسلسل نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کرتی ہیں۔ اور جب حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں، تو نہ تدبر باقی رہتا ہے اور نہ ہی تحمل۔ ہیگل نے کہا تھا یعنی حقیقی آزادی وہ ہے جو انسان کو ناگزیر حالات کی ماہیت کا شعور دے۔ یہی شعور صبر اور استقامت کا ابتدائی زینہ ہے جب ہم ادب، خاص طور پر اُردو ادب، کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں صبر اور استقامت صرف الفاظ میں نہیں بلکہ ایک فکری تحریک کے طور پر ملتے ہیں۔ غالب کی شاعری، اقبال کا فلسفہ، فیض کا انقلابی بیانیہ اور منٹو کا احتجاج سب اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ صبر، احتجاج کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے، اور استقامت صرف خاموشی نہیں بلکہ فکری مزاحمت بھی ہوسکتی ہے۔ اقبال نے ’’ خودی‘‘ کے فلسفے میں صبر کو ابتدائی مگر لازمی مقام دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ خودی تب تک پروان نہیں چڑھتی جب تک انسان آزمائشوں سے نہ گزرے اور ان میں ثابت قدمی نہ دکھے، حیاتِ انسانی کا جمال، صبر و استقامت میں مضمر ہے۔ آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صبر اور استقامت صرف مذہبی اصطلاحات نہیں بلکہ انسانی وجود کے بنیادی ستون ہیں۔ ان کے بغیر نہ شعور کی تشکیل ممکن ہے، نہ معاشرت کی تعمیر اور نہ ہی روحانیت کی پرواز۔ مشکلات وہ تجربے ہیں جن سے گزر کر انسان اپنے باطن کی گہرائیوں سے واقف ہوتا ہے۔ استقامت وہ روشنی ہے جو فکری تاریکی کو منور کرتی ہے۔ اور صبر وہ قوت ہے جو انسان کو خدا سے جوڑتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسان اپنے رب کی طرف لوٹتا ہے اور کہتا ہے: اے اللہ میں تیری رضا پر راضی ہوں، پاکستان کی تاریخ میں بھی ہم نے کئی بار ایسے حالات کا سامنا کیا جنہیں ناقابلِ برداشت کہا جا سکتا ہے، لیکن اجتماعی حوصلے، قیادت کے عزم اور عوام کی قربانیوں نے ان کٹھن لمحات کو عبور کیا۔ زلزلے، سیلاب، دہشت گردی اور وبائیں ان سب نے قوم کو آزمایا، مگر قوم نے ہر بار ان مشکل وقتوں کو پیچھے چھوڑا۔ یہی قوموں کی اصل پہچان ہوتی ہے مشکل وقت میں ٹوٹنا نہیں، سنورنا۔ فرد کی سطح پر بھی، مشکل وقت دراصل انسان کی شخصیت کی تراش خراش کا ایک عمل ہوتا ہے۔ جس طرح کوئلہ دبائو میں آ کر ہیرا بنتا ہے، ویسے ہی انسان کی اصل صلاحیتیں اور جوہر اس وقت نکھرتے ہیں جب وہ آزمائش کے مراحل سے گزرتا ہے۔
معروف شاعر ناصر کاظمی کا شعر ہے:
غمِ دوراں ہو، غمِ جاناں ہو
آخرش کٹ ہی جاتا ہے ہر اک موسمِ غم
یہ شعر صرف جذباتی سہارا نہیں بلکہ گہری نفسیاتی سچائی کی ترجمانی ہے۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے وہ قوت، وہ توانائی، اور وہ بصیرت رکھی ہے جو اسے ہر اندھیرے سے نکال سکتی ہے، بشرطیکہ وہ خود کو شکست دینے کے بجائے، حالات کا جواں مردی سے سامنا کرے۔مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مشکل وقت کو صرف برداشت نہ کریں، بلکہ اس سے کچھ سیکھیں۔ جو افراد ہر مشکل کے بعد بہتر انسان بن کر ابھرتے ہیں، وہی دراصل زندگی کے اصل فاتح ہوتے ہیں۔ خود احتسابی، صبر، دعا، تدبر، اور منصوبہ بندی وہ اوزار ہیں جن سے ہم نہ صرف مشکلات کو عبور کر سکتے ہیں بلکہ ایک نئی راہ بھی متعین کر سکتے ہیں۔ دورِ جدید کے دانشوروں کا بھی یہی موقف ہے کہ تبدیلی ہی وقت کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، کیونکہ وقت اپنی فطرت میں متغیر ہے۔ زندگی کا سفر خوشیوں، راحتوں اور مسرتوں کے ساتھ ساتھ مصائب، آلام اور بیماریوں سے بھی عبارت ہے۔ انسانی وجود کو درپیش سب سے کٹھن آزمائشوں میں بیماری ایک ایسی کیفیت ہے جو نہ صرف جسمانی مشقت کا سبب بنتی ہے بلکہ روح و دل کی گہرائیوں میں بھی اضطراب برپا کر دیتی ہے۔ تاہم، اسلام نے بیماری کو محض ایک جسمانی اذیت کے طور پر نہیں بلکہ روح کی تطہیر،قلب کی آزمائش، اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ایک دروازہ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی ؐ بیماری کے تصور کو نہایت مثبت، بامقصد اور روحانی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یہ کیفیت انسان کیلئے محاسبہ، صبر، توکل، اور توبہ کی دعوت ہے۔
اللہ ربّ العزت فرماتا ہے ’’ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے، جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘ ۔
یہ آیت ایک انقلابی پیغام دیتی ہے کہ بیماری، دکھ یا نقصان محض حادثہ نہیں بلکہ ایک روحانی موقع ہے، خود کو اللہ کے سامنے سپرد کرنے کا، اپنی بے بسی کو اس کی عظمت کے آگے تسلیم کرنے کا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیماری کو گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ مومن کو جو بھی دکھ، تکلیف، غم یا بیماری پہنچتی ہے، وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، حتیٰ کہ اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو بھی‘‘۔
یہ حدیث نہایت جامع پیغام دیتی ہے کہ بیماری ظاہری طور پر تکلیف دہ سہی، مگر باطنی طور پر ایک رحمت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان فانی دنیا کی چکاچوند سے ہٹ کر اپنی حقیقت، اپنے مقصد اور اپنے خالق کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ہماری روحانی روایات، صوفیانہ فکر میں بھی بیماری کو روحانی تربیت اور قربِ الٰہی کے عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اولیائے کرام نے بیماری کے لمحات کو عبادت، دعا اور توکل کے ذریعے گزارا۔ ان کے لیے بیماری جسم کی آزمائش نہیں بلکہ روح کی بیداری کا ذریعہ تھی۔ آج جب دنیا طبّی ترقی کے باوجود نت نئی بیماریوں سے دوچار ہے، تو بحیثیت مسلمان ہمیں اس منظرنامے کو صرف سائنسی زاویے سے نہیں بلکہ روحانی تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دل و دماغ کو اس شعور سے منور کرنا ہوگا کہ بیماری ایک پیغام ہے، زندگی کی ناپائیداری کا، بندگی کی اہمیت کا، اور صبر و شکر کی عظمت کا۔ اسلامی تعلیمات نہ صرف بیماری کے وقت علاج کروانے کی ترغیب دیتی ہیں بلکہ دعا، ذکر اور توکل کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین بھی کرتی ہیں۔ علاج سنت ہے، مگر شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے ساتھ اس کا علاج بھی نازل کیا ہے، پس علاج کرو اور شفا اللہ سے طلب کرو‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بیماری کو اپنی روحانی اصلاح، اجتماعی شعور اور قلبی رجوع کا ذریعہ بنائیں۔ یہ وقت اپنی ترجیحات پر غور کرنے، اللہ سے تعلق مضبوط کرنے، اور صبر و استقامت کو اپنانے کا ہے۔ بیماری کے لمحے میں اگر ہم صبر کی روش اپناتے ہیں، تو نہ صرف ہم ربِ کائنات کی رضا کے قریب ہو جاتے ہیں بلکہ ہماری روح بھی ایک نئی تازگی اور لطافت کے ساتھ زندگی کی حقیقت کو سمجھنے لگتی ہے۔ یہی صبر کا وہ مفہوم ہے جو انسانی عظمت کو پروان چڑھاتا ہے اور فرد کو معاشرے کا ایک روشن چراغ بناتا ہے۔
شیر افضل ملک

جواب دیں

Back to top button