Column

کسی کے رزق کا دروازہ بند مت کیجیے۔۔۔

کسی کے رزق کا دروازہ بند مت کیجیے۔۔۔
تحریر : عقیل انجم اعوان
یہ مئی کی ایک جھلسا دینے والی صبح تھی۔ سورج سوا نیزے پر تھا اور گرمی کی شدت یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے ہر چیز پگھلنے کو ہو۔ میں لاہور کے ایک سرکاری اسپتال کے باہر اپنے کزن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ایک عزیز کا انتظار کر رہا تھا۔ اسی لمحے میری نظر ایک چھوٹے سے ٹھیلے پر پڑی جو اسپتال کی دیوار سے ذرا پرے لگایا گیا تھا۔ ایک نابینا لڑکا سفید چھتری تانے بیٹھا تھا۔ اُس کے سامنے ایک درجن کتابیں رکھی تھیں، کچھ اسلامی، کچھ ادبی اور ایک تختی، جس پر ایک جملہ لکھا تھا ’’ ہم پڑھ نہیں سکتے پر بیچ سکتے ہیں۔۔۔ آپ خرید لیجیے، ہمیں دیکھ لیجیے‘‘۔
میں ایک پل کو ٹھٹک گیا۔ کچھ لمحے تک اسی تختی کو تکتا رہا۔ پھر بے اختیار گاڑی کا دروازہ کھولا اور اُس نابینا لڑکے کے قریب جا بیٹھا۔ بھائی تم یہ کتابیں بیچتے ہو؟ وہ مسکرایا۔ ایسی مسکراہٹ جو دکھ کے پردوں سے چھن کر آتی ہے اور سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ جی بھائی کتابیں بیچتا ہوں تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ روشنی نہیں ہے آنکھوں میں پر دل میں امید کی شمع جلتی رہتی ہے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ میں نے تختی کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے سر ذرا جھکایا، پھر دھیرے سے کہا یہ میرے استاد نے لکھا تھا۔ وہ کہتے تھے دنیا میں کچھ لوگ رزق بانٹنے والے ہوتے ہیں اور کچھ دعا دینے والے۔ میں دونوں میں سے ایک بننے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے جیب سے کچھ نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھائے اُس نے آہستہ سے ہاتھ روک لیا۔ بھائی کتاب خریدیے گا؟ صدقہ نہ دیجیے گا۔ میں ضرورت مند ہوں مگر سوالی نہیں۔ میں نے اُس سے دو کتابیں خریدیں۔ قیمت پوچھ کر دی اور واپس گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔ مگر سچ یہ ہے کہ میں وہاں سے آیا ضرور پر وہ لڑکا میرے دل میں رہ گیا۔ اسی شام ایک پرانے کلاس فیلو دوست سے ملاقات ہوئی۔ ایک کامیاب صنعت کار کروڑوں کا کاروبار درجنوں ملازم۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کچھ لوگوں کو نکال دیا مہینوں سے بیکار بیٹھے تھے۔ میں نے نرمی سے پوچھا تم نے تنخواہیں بچائیں یا کسی کے چولہے بجھائے؟ وہ ایک لمحے کو چپ ہو گئے۔ پھر مسکرا کر بات بدل دی۔ مگر اُن کی آنکھوں میں کچھ تھا۔۔۔ شاید صبح کے اُس نابینا لڑکے کی طرح جو روشنی سے محروم ہو کر بھی امید کا سودا بیچ رہا تھا۔ دو ماہ بعد اُنہی دوست کا فون آیا۔ آواز میں لرزش تھی۔ کارخانے میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی، سب کچھ جل گیا۔ انشورنس والوں نے کلیم بھی مسترد کر دیا۔ میں چپ رہا۔ پھر بس اتنا کہا کبھی کبھی ہم وہ دروازے بند کر دیتے ہیں جن سے رب ہمیں نوازتا ہے، فون بند ہو گیا مگر شاید اُس لمحے کسی اندرونی دروازے پر دستک ضرور ہوئی تھی۔
دوستو! ہم میں سے اکثر سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے ملازمین کو رزق دے رہے ہیں ہم تنخواہ دے کر احسان کرتے ہیں۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بھی کسی کے وسیلے سے رزق پا رہے ہیں۔ وہ ورکر، وہ چپڑاسی، وہ مالی وہ آیا۔۔۔ شاید انہی میں سے کسی کے گھر کا چولہا ہمارے حق میں جلتی دعائیں دیتا ہو۔ رزق کا معاملہ صرف تنخواہ کا نہیں دعا کا بھی ہوتا ہے۔ جب ہم کسی کو نکالتے ہیں تو ہو سکتا ہے ہم صرف ایک فرد نہیں نکال رہے اپنے رزق کی برکت بھی نکال رہے ہوں۔ دنیا ایک زنجیر ہے ایک پرزہ نکل جائے تو پوری مشین ڈگمگا جاتی ہے۔ ایک انسان کے ہٹنے سے نظام بظاہر بہتر لگتا ہے مگر اس کی کمی جلد یا بدیر ظاہر ہو جاتی ہے۔ ایک اور جاننے والے ہیں۔ اصول پسند نیک دل لیکن ذرا سخت گیر۔ ایک دن شکایت کرنے لگے میری بیگم کہہ رہی ہے، ملازمہ بار بار چھٹی مانگتی ہے اس کو نکال دیں، سوچ رہا ہوں اسے نکال دوں۔ میں نے پوچھا کتنے عرصے سے ہے؟ کہنے لگے پانچ سال سے۔ کام دیانت سے کرتی ہے بس اب بار بار کی چھٹی سے میری بیگم سخت پریشان ہے۔ میں نے آہستہ سے کہا پانچ سال تمہارے گھر کی عزت اس نے سنبھالی تو کیا تم پانچ دن اس کی مجبوری نہیں سنبھال سکتے؟ وہ خاموش ہو گئے۔ چند روز بعد اُن کا بیٹا اچانک بیمار ہو گیا۔ دوائیں، ڈاکٹر، دعائیں سب کچھ کر کے دیکھ لیا مگر افاقہ نہ ہوا۔ پھر ایک دن کسی بزرگ کے مشورے پر ملازمہ کو بلایا اس سے معذرت کی خرچہ دیا دعائیں لیں۔ اگلے دن بچہ ٹھیک ہو گیا۔ اتفاق سمجھ لیجیے مگر حقیقت یہی ہے کہ رب کے فیصلے دعائوں سے ہوتے ہیں اور دعا کا دروازہ تبھی کھلا رہتا ہے جب کسی کا رزق بند نہ کیا جائے۔ ایک اور دوست کا واقعہ سن لیجیے۔ کہنے لگے ایک ملازم کو فارغ کیا بار بار بیمار ہو جاتا تھا۔ میں نے پوچھا کبھی وجہ جاننے کی کوشش کی؟ دوا یا بچوں کی فیس دی؟ جواب نفی میں تھا۔ چند ماہ بعد ایف بی آر کی چھاپہ مار کارروائی، مقدمے، جرمانے، رسوائی۔۔۔ وہی صاحب بولے لگتا ہے کسی کی بددعا لگ گئی۔ میں نے آہستہ سے کہا بددعائیں تب لگتی ہیں جب دعائوں کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ دوستو! اگر رب نے آپ کو کسی کے رزق کا ذریعہ بنایا ہے تو یہ آپ کی بڑائی نہیں رب کا کرم ہے۔ یہ وسیلہ ایک نعمت ہے اور نعمت کی ناشکری برکت چھین لیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کو نکال کر کسی کا کنٹریکٹ ختم کر کے ہم بہتری لا رہے ہیں مگر حقیقت میں ہو سکتا ہے وہی شخص، وہی ہاتھ، ہمارے حق میں اُٹھنے والی وہ خاموش دعا ہو جس سے ہمیں سکون، تحفظ اور برکت مل رہی ہو۔ اگر آج آپ کے پاس اختیار ہے تو کل وہ اختیار چھن بھی سکتا ہے اور جب چھنتا ہے تو دنیا کی بے رحمی یاد آتی ہے مگر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ مجھے آج بھی وہ نابینا لڑکا یاد ہے جو اپنی بینائی کھو کر بھی امید بیچ رہا تھا۔ اس کی تختی کے الفاظ آج بھی دل پر نقش ہیں
’’ ہم پڑھ نہیں سکتے پر بیچ سکتے ہیں۔۔۔ آپ خرید لیجیے ہمیں دیکھ لیجیی‘‘۔
لہٰذا اگر آپ کسی کا وسیلہ ہیں تو اس وسیلے کو نبھائیے۔ یہ امانت ہے اور امانت میں خیانت رب کو پسند نہیں۔ یاد رکھیے! کبھی کسی کا رزق بند مت کیجیے ہو سکتا ہے وہی آپ کے رزق کا دروازہ ہو۔

جواب دیں

Back to top button