جیلر کی ملازمت سے برطرفی

جیلر کی ملازمت سے برطرفی
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پرانے وقتوں میں بڑے بڑے جاگیر دار اور سردار بچوں کو تحصیل دار، تھانیدار اور جیلر بھرتی کرانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اس دور میں مال پانی بنانے کا رواج اس سطح پر نہیں تھا جیتنا آج کل ہے۔ اس دور میں صوبائی پبلک سروس کمیشن وجود میں نہیں آیا تھا لہذا جس کی سفارش تگڑی ہوتی تھی وہ اپنے بچوں کو محکمہ مال، جیل خانہ جات اور پولیس میں بھرتی کرا لیتے تھے۔ پبلک سروس کمیشن کے وجود میں آنے کے بعد امیر اور غریب کی تمیز ختم ہو گئی میرٹ پر جو آگیا خواہ وہ کسی غریب ہی کا بیٹا کیوں نہ ہو سرکار میں افسر بن جاتا ہے۔ آج ہم صرف محکمہ جیل خانہ جات کی بات کریں گے جہاں ایک ڈی آئی جی کا عہدہ ہوتا تھا اب ہر ریجن میں ڈی آئی جی کی پوسٹ تخلیق ہو گئی ہے جو اچھی بات ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بھرتی ہو نے والے کم از کم ڈی آئی جی کے عہدہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ جیل خانہ جات کی ملازمت آج کے دور میں پر کشش تصور کی جاتی ہے۔ سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہونے والے چند سال میں گریڈ بیس میں ترقی پا جاتے ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات میں ترقیاں دینے میں اہم کردار آئی جی میاں فاروق نذیر کا ہے جنہوں نے برسوں سے ترقی کے منتظر افسران کو گریڈ بیس میں ترقی دلوائی ہے۔ گریڈ سترہ میں اپنے سکیل میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر کام کرنے والے بے شمار افسران کو گریڈ اٹھارہ میں ترقی دینے کا سہرا آئی جی جیل خانہ جات کے سر ہے۔ جو افسران صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے گریڈ سترہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھرتی ہوئے تھے ان میں سے بہت سے گریڈ انیس میں ترقی پا کر سینٹرل جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ تعینات ہیں۔ گریڈ انیس میں سنیئر سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی پانے والوں کے کئی بیج میٹ ملازمت کا ریکارڈ تسلی بخش نہ ہونے کے باعث گریڈ انیس میں ترقی پانے سے محروم ہو گئے ہیں۔ گریڈ انیس میں ترقی سے محروم ہونے والے جیلر میں نور حسن بگھیلہ بھی شامل ہے۔ نور حسن جہاں تعینات رہا کئی داستانیں چھوڑ آیا۔ ایک ماہ پہلے فیس بک پر ہڑپہ کے زرعی فارم میں اسے کھیتی باڑی کرتے دیکھا گیا تو ہم نے ایک دوست سے لاہور میں رابطہ کرکے نور حسن بارے دریافت کیا تو پتہ چلا وہ ملازمت سے برخاست ہو گیا ہے۔ وہ بتا رہے تھے سنٹرل جیل فیصل آباد سے ملحقہ کچھ سرکاری اراضی کا سودا اپنے طور پر کرکے کروڑوں روپے وصول کرنے والا نور حسن ملازمت پر بحالی کا خواہش مند نہیں، اس کی دیرینہ خواہش ہے اسے ملازمت سے ریٹائرمنٹ مل جائے۔ سوال ہے جب کوئی سرکاری ملازم مبینہ کرپشن میں ملازمت سے برطرف ہو جائے تو ایسے افسران کو ریٹائرمنٹ کیسے دی جا سکتی ہے؟، نور حسن نہایت چالاک اور مبینہ طور پر بداخلاق مشہور تھا جس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہوا ہے۔ جب میں سینٹرل جیل راولپنڈی میں سزائے موت میں بی کلاس کا قیدی تھا تو صبح چار بجے نور حسن گارد کے ہمراہ تلاشی کے لئے وارد ہوا۔ سزائے موت کے سیل میں ٹی وی دیکھتے ہی اس نے ٹی وی باہر رکھنے کو کہا جس پر اس ناچیز نے کہا جناب میرے پاس سیکرٹری داخلہ کا اجازت نامہ ہے۔ میرا بولنا تھا نور حسن آگ بگولہ ہو گیا اور گارد کو حکم دیا اس بابے کو قصوری میں بند کر دو۔ خیر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میں قصوری بلاک میں بند ہونے سے بچ گیا۔ دوران تلاشی اسے اخلاقی اقدار بھول جاتی تھیں۔ سینٹرل جیل فیصل آباد سے ملحقہ قیمتی اراضی جہاں پہلے جیل خانہ جات کے ملازمین کے سرکاری کوارٹر تھے، پرانے ہونے کی بنا انہیں مسمار کر دیا گیا تھا، ایک صاحب نے قیمتی اراضی پر پلازہ تعمیر کرنے کی خاطر نور حسن صاحب سے سودا طے کرکے قبضہ کر لیا۔ نور حسن نے ہائیکورٹ میں بیس روپے کے اشٹام پیپر پر بیان حلفی دے دیا یہ اراضی جیل کا حصہ نہیں ہے۔ پنجاب کے سیکرٹری داخلہ نورالامین مینگل سے میرا تعارف نہیں حالانکہ بلوچستان میں کام کرنے والے بہت سے اعلیٰ افسران سے میر ے ذاتی مراسم ہیں، جن میں جناب احمد بخش لہڑی جو چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر، غلام محمد تاج مرحوم اور ان کے بیٹے شہریار تاج جو ان دنوں ٹریڈ کارپوریشن کے سیکرٹری ہیں، سے میرے قریبی روابط ہیں، البتہ مینگل صاحب سے ملاقات نہیں ہے۔ وہ کمشنر فیصل آباد رہ چکے تھے، سینٹرل جیل کی اراضی سے متعلق انہیں پوری معلومات تھیں، لہذا سرکاری اراضی کو اونے پونے داموں میں فروخت کرنے والے نور حسن کو صوبائی سیکرٹری داخلہ نورالامین مینگل نے ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔ نور حسن کے قریبی جان پہچان والے افسران کے بقول وہ نہایت خود غرض اور مبینہ طور پر بداخلاق افسر تھا، مال و دولت اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ مبینہ طور پر رشوت کے معاملے میں کسی سفارش کو خاطر میں نہیں لایا کرتا تھا۔ پرلے درجے کا مغرور اور متکبر جیلر آج در بدر ہے اور ریٹائرمنٹ کی بھیک مانگ رہا ہے۔ غیر تسلی بخش سروس ریکارڈ کا حامل ہونے کی وجہ سے وہ گریڈ انیس میں ترقی سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ وہ سینٹرل جیل فیصل آباد، سینٹرل جیل میانوالی، کیمپ جیل لاہور، ڈسٹرکٹ جیل اوکاڑہ ، سینٹرل جیل ساہیوال اور سینٹرل جیل راولپنڈی میں تعینات رہا۔ سینٹرل جیل کا ایک سابق چیف مجھے بتا رہا تھا اسلام آباد پولیس کا ایک افسر کسی جرم میں جیل آیا تو اسے موبائل برآمد ہو گیا، جس کے بعد نور حسن نے چیف چکر سے کہا پچاس ہزار سے کم نہیں لینا۔ نور حسن بگھیلہ نے ملازمت سے برطرفی کے بعد چیف سیکرٹری سے اپیل کر رکھی ہے۔ چیف سیکرٹری سے اپیل مسترد ہونے کے بعد لازمی بات ہے وہ پنجاب سروس ٹربیونل سے رجوع کرے گا، لیکن سرکاری ملازمت کا ریکارڈ اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔ کمالیہ سے تعلق رکھنے والا نور حسن کبھی سوچ نہیں سکتا تھا اسے یہ دن دیکھنا نصیب ہوگا ۔ حق تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ قرآن مجید کی وہ آیت مجھے یاد آرہی ہے، جس میں کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔