تخت و تاج محفوظ

تخت و تاج محفوظ
آصف علی درانی
پاکستان کی سیاسی تاریخ دراصل جمہوریت کے نام پر مسلط اشرافیہ کی وہ المناک داستان ہے، جس میں عوام ہمیشہ بازیچہ اطفال ٹھہرے اور اقتدار کے ایوان محض چند خانوادوں، مقتدر حلقوں اور پسِ پردہ قوتوں کے درمیان گردش کرتے رہے۔ یہاں جمہوریت اک مقدس پردہ ہے، جس کے پسِ منظر میں خود غرضی، مصلحت اندیشی، ادارہ جاتی مداخلت اور گروہی مفادات کا وہ طوفان برپا ہے جس نے قومی سیاست کو ایک مضحکہ خیز تماشے میں بدل دیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب قوم نے سکھ کا سانس لیا، تو گمان ہوا کہ اب عوامی اقتدار کی راہ ہموار ہو گی، مگر جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ یہاں نہ تو اقتدارِ اعلیٰ واقعی عوام کے پاس ہے اور نہ ہی آئین و قانون کی بالادستی کو وقعت حاصل ہے۔ پہلا وزیرِ اعظم قتل ہوا، پہلا آئین منسوخ ہوا، اور پہلی فوجی مداخلت نے بتا دیا کہ اس خطے میں طاقت کا سرچشمہ عوامی مینڈیٹ نہیں، بلکہ وردی اور دفتری قلم ہے۔ ملک کے تمام فوجی ادوار میں جمہوریت کو محض ایک تماشا بنایا گیا۔ ایوب خان سے ضیاء الحق اور ضیاء سے پرویز مشرف تک، ہر آمر نے خود کو قوم کا نجات دہندہ باور کرانے کی کوشش کی، اور ہر بار سیاسی جماعتوں کو بانٹ کر، خرید کر یا ڈرا کر ایسا منظر نامہ تشکیل دیا گیا جس میں انتخابی عمل محض رسمی رہ گیا۔ سیاسی انجینئرنگ، غیر فطری اتحاد، اور مصنوعی قیادت کی تخلیق یہ سب ایسے اوزار تھے جن کے ذریعے عوامی رائے کو پامال کیا گیا۔ جمہوری ادوار میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہ رہی۔ بظاہر تو پارلیمنٹ موجود تھی، مگر اصل اقتدار اشرافیہ کی ان جیبوں میں تھا جہاں قومی خزانہ، عدالتی نظام اور ریاستی بیانیہ تک جا کر سرنگوں ہو جاتا تھا۔ آج بھی اگر کسی عوامی نمائندے کی زبان سے حقیقی سوال نکل آئے تو اس پر غداری کی تہمت دھر دی جاتی ہے، اور اگر کوئی صحافی آئینہ دکھانے کی جسارت کرے، تو اسے معیشت کی تباہی یا قومی سلامتی کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستانی جمہوریت کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں صرف وہی سیاست دان ترقی کرتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی قربت حاصل کرے، اور صرف وہی جماعت حکومت میں آتی ہے جو درپردہ وعدوں کا پاسدار ہو۔ قومی نظریہ ہو یا مذہبی بیانیہ، ہر شے کو سیاست کی منڈی میں نیلام کیا گیا۔ مفادات کی اس یلغار میں نہ اقدار باقی رہیں، نہ اصول۔۔۔۔
عدلیہ، جو آئین کی محافظ اور عوامی حقوق کی ضامن مانی جاتی ہے، اکثر ایسے موڑ پر بے بس یا جانبدار دکھائی دیتی ہے جہاں فیصلے وقت کے تقاضے سے زیادہ طاقتور فریق کی مرضی سے مشروط ہوتے ہیں۔ قانون کی تشریح کبھی وطن پرستی کی آڑ میں کی جاتی ہے، تو کبھی مصلحتِ وقت کی روشنی میں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے آئین خود ایک متنازع دستاویز بن چکا ہے، جسے ہر طبقہ اپنے مفاد کے تحت موڑنے کا عادی ہو چکا ہے۔
تاہم، اس المیے میں عوام بھی کم شریک نہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں تعلیم عام نہ ہو، معلومات تک رسائی محدود ہو، اور ذرائع ابلاغ خریداروں کے رحم و کرم پر ہوں، وہاں سیاسی شعور کا فقدان فطری ہے۔ ووٹ خریدنا یہاں محض مالی لین دین نہیں بلکہ شعور کی بے بسی کا ثبوت ہے۔ عوام بارہا ان ہی چہروں کو چنتے ہیں جو ان کے مسائل کے ذمہ دار ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں متبادل سوچنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔
تعلیم، جو کسی قوم کی فکری بنیاد ہوتی ہے، ہمارے ہاں مخصوص نصابی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں سیاسی نظریات، جمہوریت کے اصول، اور آئینی حقوق پر نہ تو بحث کی اجازت ہے، نہ تربیت۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے جس کے لیے ’’ جمہوریت‘‘، ’’ قانون‘‘ اور ’’ ریاست‘‘ جیسے الفاظ محض اخباروں کی سرخیاں ہیں، کسی زندہ حقیقت کا عکس نہیں۔
سیاسی جماعتیں خود اندرونی طور پر غیر جمہوری نظام کی علامت بن چکی ہیں۔ جہاں پارٹی کے سربراہ کو چیلنج کرنا غداری سمجھا جاتا ہو، جہاں پارٹی انتخابات محض دکھاوا ہوں، اور فیصلے چند خاندانوں کے صوابدیدی اختیارات پر ہوں، وہاں قوم کیسے ایک جمہوری قیادت کی امید رکھے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جمہوریت کے اندر چھپی ہوئی یہ آمرانہ ساخت دراصل پورے نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر چکی ہے۔
آج عوام مہنگائی کے طوفان میں ڈوب رہے ہیں، مگر سیاسی قیادت اقتدار کے کھیل میں مصروف ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں، مگر اسمبلیاں خاندانی بادشاہتوں کی جاگیر بنی ہوئی ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہی ہے وہ جمہوریت جس کے لیے ہم نے آمریت کی راتیں کاٹیں؟ کیا یہی ہے وہ حاکمیتِ عوام کا تصور جسے ہم نصابوں میں پڑھاتے رہے؟
جمہوریت جب تک عوامی امنگوں کی ترجمان نہ بنے، اور جب تک اس پر اشرافیہ و مقتدرہ کے پنجے قائم رہیں، وہ صرف ایک چہرہ ہے ایسا چہرہ جو بار بار بدلا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے موجود بدنما جسم ہمیشہ وہی رہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اب اس مصنوعی جمہوریت کے فریب سے نکلے، اور ایک ایسی سیاسی بیداری کو فروغ دے جو نہ صرف انتخابی عمل کو شفاف بنائے، بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کی مداخلت کو بھی لگام دے۔
یہ کام نہ تو جلسوں سے ہو گا، نہ صرف سوشل میڈیا کے نعروں سے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں سیاسی شعور پیدا کرنا ہو گا، آئینی بالادستی کی فکر کو عام کرنا ہو گا، اور سب سے بڑھ کر، ہر شہری کو اس بات کا احساس دلانا ہو گا کہ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی رائے، اپنے حق اور اپنے مستقبل کی محافظت کا نام ہے۔
جمہوریت کا اصل حسن صرف اس وقت ظاہر ہو گا جب یہ اشرافیہ کی زلفِ گرہ گیر سے آزاد ہو، اور واقعی عوام کے ہاتھوں میں اس کی باگ ہو۔ ورنہ یہ نظام یونہی دھوکہ رہے گا، جس میں عوام جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں اور اقتدار اشرافیہ کی تجوریوں میں بند رہتا ہے۔