احسن اقبال صاحب، عوام اور کتنا ٹیکس دے؟

احسن اقبال صاحب، عوام اور کتنا ٹیکس دے؟
تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
سی پیک کے حوالے سے ایک کانفرنس میں جناب احسن اقبال صاحب کو براہ راست دیکھنے سننے کا موقع ملا۔ عین اسی کانفرنس کے دوران مرحوم عارف نظامی صاحب نے سٹیج پر اپنے خطاب سے پہلے یہ خبر بریک کی کہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی جنرل آصف غفور نے ڈان لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کی انکوائری رپورٹ کو مسترد کئے جانے والی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی ہے جس سے یہ تاثر ملا کہ سیاسی و ملٹری قیادت کے درمیان کشمکش ختم ہونے جارہی ہے۔ مگر چند ماہ بعد یہ تاثر بھی زائل ہوگیا جب تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو بابے رحمتے کے ذریعہ ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ بات کہیں اور ہی چل نکلی، ذکر چل رہا تھا احسن اقبال صاحب کا کہ جنہوں نے اس کانفرنس میں مدلل انداز سے سی پیک کے حوالے سے پاکستان و چین کی حکومتوں کے اقدامات کو اُجاگر کیا۔ یقین مانیں جس انداز سے موصوف نے مدلل، تحمل مزاجی برقرار رکھتے ہوئے حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ کانفرنس میں مخالفت برائے مخالفت کرتے اپوزیشن رہنمائوں کی بولتی بند کی، یقین مانیں میں اسی دن سے موصوف کا پرستار بن گیا۔ مگر کبھی کبھی اتنا قابل انسان بھی سطحی باتیں کرے تو بہت عجیب لگتا ہے ۔
گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ہمارا شمار دنیا کے کم ترین ٹیکس ادا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے، ہمارے ترقی کے خواب بڑے ہیں لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی کم ترین ہے، پاکستان کا ہر شہری اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرے۔ موصوف وزیر صاحب نے مزید فرمایا کہ ہمیں اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو ساڑھے 10 فیصد سے 16یا 18فیصد تک لے کر جانا ہے، جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ ٹیکس چوری کے خلاف چوکیدار کا کردار ادا کریں۔ گزشتہ کئی سال سے ہر حکمران جماعت ٹیکس چوری پر شور و غوغا کرتی ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتی۔ حالانکہ یہ حکومتی بیانیے اور دعوے حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ ایسا کونسا پاکستانی ہے جو حکومت کو ٹیکس نہیں دیتا؟ روٹی کپڑا اور مکان و دیگر ضروریات زندگی کی ایسی کونسی اشیاء ہیں جن پر پاکستانی عوام ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ گھر کے استعمال کی ہر خاص و عام اشیاء پر ٹیکس ادائیگی کے بعد ہی خریداری ممکن ہوتی ہے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ عوام کی جیبوں سے نچوڑا گیا سیلز ٹیکس، کارپوریٹ سیکٹر کی جیبوں ہی میں رہتا ہے یا پھر حکومتی خزانے میں جمع ہو پاتا ہے یا نہیں؟
حکومتیں نظام ریاست چلانے کے لئے رعایا پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہیں۔ کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور انکم ٹیکس براہ راست ٹیکس کہلاتے ہیں جبکہ کسٹمز ڈیوٹیاں، سینٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ان ڈائر کٹ یعنی بالواسطہ ٹیکس کہلاتے ہیں۔ سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پر لگائی جاتی ہیں۔ جبکہ کسٹمز ڈیوٹیاں درآمدی سامان پہ لگتی ہیں۔ اسی طرح سیلز ٹیکس اندرون ملک اشیا کی خرید و فرخت پہ لگایا جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی خزانے میں ٹیکسوں کا زیادہ حصہ ڈائریکٹ یعنی براہ راست ٹیکسوں کا ہوتا ہے یعنی جو جتنی زیادہ آمدنی کمائے وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے، اسکے بعد بالواسطہ ٹیکس شمار کئے جاتے ہیں۔ تاکہ ریاست زیادہ آمدنی کمانے والے افراد سے ٹیکس لیکر ریاسی اُمور اور کم آمدنی والے افراد کی فلاح و بہبود پر خرچ کر سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس نظام اُلٹی گنگا بہانے کے مصداق ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس کا تناسب براہ راست ٹیکسوں سے بہت زیادہ ہے۔ جبکہ کارپوریٹ سیکٹر چونکہ اشرافیہ ہے اور یہ امیر ترین طبقہ من گھڑت اعداد و شمار، ٹیکس چھوٹ، ٹیکس چوری اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے ریاست کے خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ پاکستان میں براہ راست ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے سے ہی وصول ہوتا ہے۔ پھر یہی تنخواہ دار طبقہ بچی کھچی تنخواہ سے گھر کے استعمال کی ہر شے پر سیلز ٹیکس الگ سے دینے پر مجبور ہوتا ہے۔
کبھی آپ نے یہ خبر سنی یا دیکھی ہو کہ کارپوریٹ سیکٹر کے کسی فرد کو ٹیکس چوری کے جرم میں جیل یاترا ہوئی ہو؟ چونکہ حکومتی ایوانوں میں یہی امیر ترین اشرافیہ براجمان ہوتی ہے لہذا ریاستی نظام چلانے کے لئے اشرافیہ غریب عوام کی چمڑی کو رنگ برنگے ٹیکسوں سے ادھیڑ رہی ہوتی ہے۔ چاہے وہ بیرونی ممالک سے سستا پٹرول خرید کر مہنگے داموں فروخت کرنا ہو یا پھر بجلی بنانے کے منصوبوں کے لئے نیلم جہلم جیسے ٹیکس عائد کرنا ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عوام مخالف ٹیکس نظام وجود پکڑ چکا ہے۔ یعنی کہ ایک کلو گھی، ایک لیٹر پٹرول یا عام صابن خریدینے پر کم از کم اجرت یعنی 37ہزار روپے کمانے والا پاکستانی اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہا ہے جتنا کہ کوئی ارب پتی شہری ادا کرتا ہے۔
جناب احسن اقبال صاحب، ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکسوں کے حصول کے لئے حکومتی توپوں کا رُخ عام پاکستانی کی بجائے اشرافیہ اور حکومتی اداروں میں شامل کالی بھیڑوں کی طرف کیجئے، جن کی بدولت حکومتی خزانہ خالی رہتا ہے اور پھر اس خزانے کو بھرنے کے لئے عوام الناس کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ایسے ساہوکاروں سے ترلے منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اشرافیہ میں شامل ٹیکس چوروں پر پہرا بھی خود حکومت کو دینا ہوگا اور ٹیکس چوری کی کڑی سے کڑی سزائیں بھی خود حکومت کو دلوانی ہونگی۔ ورنہ وزیر صاحب آپ سمیت تمام حکومتی مشینری کو عوام الناس کے خلاف روایتی بیان بازی سے پرہیز کرنا ہوگا۔