ColumnImtiaz Aasi

جے یو آئی پی ٹی آئی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی

امتیاز عاصی
عام طور پر سیاست دان عوامی خدمت کو عبادت قرار دیتے ہیں تاہم وقت نے ثابت کیا ہے سیاست دانوں کا مطمع نظر عوام کی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات سے جڑا ہے۔ کئی عشرے پہلے کی سیاست پر نظر ڈالیں تو سیاست دان عوام کی خدمت کرکے خوشی محسوس کرتے تھے لیکن مال و دولت کی ریل پہل نے سیاسی رہنمائوں کو عوام کی خدمت سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ سیاست دانوں میں عوام کی خدمت کا جذبہ موجزن ہوتا تو بلوچستان کبھی پسماندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ جے یو آئی کو بلوچستان اور کے پی کے دونوں صوبوں میں عوام تک رسائی حاصل ہے۔ باوجود اس کے بلوچستان کی صوبائی حکومت میں جے یو آئی کئی بار حصہ بن چکی ہے جب کہ کے پی کے میں راج کر چکی ہے کوئی ایک بڑا منصوبہ بتا دے جو جے یو آئی نے اپنے دور حکومت میں مکمل کیا ہو۔ پاکستان کی سیاسی تحریک اس امر کی شاہد ہے سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلائی اسے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل رہی ہے ورنہ کوئی جماعت تنہا حکومت کے خلاف تحریک چلا کر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ ہماری سیاسی تاریخ کا طویل ترین دھرنا عمران خان نے اسلام آباد میں دیا جسے طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ جے یو آئی نے پی ٹی آئی کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں
دھرنا دیا تو بھی اسے انہی حلقوں کی آشیرباد حاصل تھی۔ جماعت اسلامی نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تو بھی انہیں اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جلسے، جلوس اور دھرنے کی خواہاں ہے ماسوائے کے پی کے جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے کسی صوبے میں پی ٹی آئی کو جلسے جلوس اور دھرنوں کی اجازت نہیں۔ بانی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے جے یو آئی کو ہم سفر بنانے کے خواہش مند تھے۔ پی ٹی آئی کے وفود نے جے یو آئی کے امیر سے کئی بار ملاقاتیں کیں جس کا نتیجہ صفر نکلا۔ آخر مولانا فضل الرحمان کو اس بات کا اعلان کرنا پڑا ان کی جماعت کسی صورت پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت مخالف تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ ایک
اردو معاصر میں شائع ہونے والی خبر نے اس ناچیز کی اس بات پر مہر ثبت کردی جو کئی ماہ قبل ہم نے اپنے کالم میں بیان کر دی تھی مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کی تحریک میں ساتھ نہیں دیں گے۔ آخر یہ عقدہ کھل گیا جے یو آئی کے امیر نے کہا ہے ان کی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد نہیں کرے گی۔ ان کا موقف ہے پی ٹی آئی کسی رہنما اصول ضابطے یا قومی مفاد کے لئے مذاکرات نہیں کر رہی اس کی تمام تر سرگرمیوں کا مقصد بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو رہائی دلانا مقصود ہے جسے قومی مقصد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مولانا کا شکوہ ہے ان سے ملنے والے پی ٹی آئی کے وفود میں یکسوئی کا فقدان تھا وہ ایک دوسرے سے مختلف سوچ کے حامل تھے لہذا ایسی جماعت کے ساتھ اشتراک کیسے ممکن ہے۔ عام طور پر سیاسی جماعتوں کو ڈی چوک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہوتی جے یو آئی کے کارکن سپریم کورٹ کے قریب پہنچ کر احتجاج کرتے رہے یہاں تک انہیں وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے ملازمین پینے کا پانی فراہم کرتے رہے نہ ان پر لاٹھی چارج ہوا نہ ہی آنسو گیس کے شیل چلائے گئے جو اس بات کا غماز ہے انہیں کسی نہ کسی کی آشیرباد ضرور حاصل تھی۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ڈی چوک آنے کی کوشش کی ان کے ساتھ جو ہوا وہ سیاسی تاریخ کا المناک باب ہے لہذا یہ کہنا کوئی جماعت طاقت ور حلقوں کی حمایت کے بغیر حکومت کے خلاف تحریک چلاسکے گی اس کی خام خیالی ہے۔ سوال ہے موجودہ حکومت کی مثال لے لیں فارم 47کے بل بوتے پر وجود میں لائی جانے والی حکومت کے خلاف کوئی جماعت تحریک چلا سکتی ہے؟ جے یو آئی کے امیر بڑے زیرک سیاست دان ہیں وہ گرم جگہ پائوں رکھنے کی عادی نہیں ہیں ان کی سیاست کا مرکز و محور طاقتور حلقے ہیں۔ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی چند ماہ بعد جے یو آئی کے امیر نے عمران خان کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا یہ بات کالم نگار حاجی نواز رضا نے اپنی کتاب میں بڑی وضاحت سے لکھی ہے۔ مولانا نے عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جہاں تک جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا حکومت مخالف تحریک میں یکجا نہ ہونے کی بات ہے ہم ماضی کی طرف جھانکیں تو بانی پی ٹی آئی کا جے یو آئی کے امیر کے ساتھ کوئی آئیڈیل رویہ نہیں رہا ہے۔ پی ٹی آئی میں باہمی یکجہتی کا بڑا فقدان ہے بانی سے ملاقات کرنے والے اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ عمران خان کی جماعت میں ایک بھی سنجیدہ رہنما ہوتا وہ اپوزیشن کے معاملات محمود اچکزائی کے حوالے نہیں کرتے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جدوجہد کا ٹاسک اچکزئی کو دے کر کیا حاصل ہوا ہے؟ پی ٹی آئی کے لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچتے دکھائی دیتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے تمام معاملات اپنے ہا تھ میں رکھے ہیں تو ایسے ہیں ان کی جماعت اور اس کے رہنما کسی قسم کی تحریک چلانے کی سکت نہیں رکھتے۔ پی ٹی آئی کے بانی کو چاہیے تھا وہ اپنی جماعت کے دو چار ان رہنمائوں کو دوسری جماعتوں سے بات چیت کا ٹاسک دیتے جو تمام جماعتوں کے لئے قابل قبول ہوتے۔ گویا یہ نہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ جے یو آئی کے امیر کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے اس وقت پی ٹی آئی کی جدوجہد کا مقصد بانی اور ان کی اہلیہ کی رہائی مقصود ہے۔ یہ بات درست ہے بانی ابھی تک کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کی طرف مائل نہیں ہیں یا جن شرائط پر انہیں رہائی دینے کی آفر ہے وہ اس پر رضامند دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ بہرکیف اس وقت پی ٹی آئی اپنے طور پر حکومت کے خلاف کسی قسم کی بھرپور تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button