ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاسی بیانیوں کا اختتام

تجمل حسین ہاشمی
جناب آصف علی زرداری پاکستان کے بااختیار صدر ہیں اور کامیاب سیاست دان بھی سمجھے جاتے ہیں، بی بی شہید کے بعد ان کا کردار ملکی سیاست میں خاصا متحرک رہا ہے، سیاسی حلقوں میں انہیں نظریاتی کے بجائے عملی سیاست دان مانا جاتا ہے، میاں شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو ان کا مائیک توڑ خطاب ریکارڈ کا حصہ ہے، ماضی میں بھاٹی چوک پر زرداری صاحب کیخلاف نعرے بھی لگے لیکن زرداری صاحب کا جمہوری، پارلیمانی نظریہ قابل ستائش رہا ہے، ان کی فہم و فراست کی داد بنتی ہے، آصف علی زرداری نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس دے کر جمہوری ہونے کا حق ادا کیا، 26ویں ترمیم میں بھی ان کی جماعت کا عمل قابل دید رہا۔ اٹھارہویں ترمیم پر کئی سیاسی حلقوں کی طرف سے مشورہ دیا گیا کہ وہ صدر کے منصب کو بے اختیار نہ کریں وگرنہ ان کیخلاف سازشیں تیز ہو جائیں گی، مگر زرداری صاحب کا کہنا تھا ’’میں بے نظیر بھٹو بن کر سوچنے لگا ہوں‘‘ اور میرے خیال میں وزیراعظم کو بااختیار ہونا چاہئے کیونکہ وہ عوامی نمائندہ ایوان سے منتخب ہوکر آتا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ختم ہوئی تو 2013میں نوازشریف وزیراعظم بنے، اس کے بعد 2015میں آصف علی زرداری کیخلاف جعلی اکائونٹس کے مقدمہ کا آغاز ہوا لیکن وہ اپنے خلاف تمام سیاسی مقدمات سے بری ہوگئے، جو ان کیخلاف قائم کئے گئے تھے، اسی دوران پانامہ سکینڈل نے سر اٹھایا اور ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ گونجنے لگا، نوازشریف کو وزیراعظم کی سیٹ سے ہٹنا پڑا اور پھر میاں نوازشریف نے نیا بیانیہ بنایا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ لیکن عوامی سطح پر وہ بیانیہ کامیاب نہ ہوسکا، احتساب کے نام پر نوازشریف حکومت میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر مقدمات بنائے اور عمران خان نے دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں پر سخت تنقید کی، خان حکومت کو عوامی مسائل اور منصوبوں پر بات کرنی چاہئے تھی لیکن وہ سارا دن ’’این آر او نہیں دوں گا، میں نہیں چھوڑوں گا‘‘ جیسے نعرے دہراتے رہے، اب سب بیانے زمین دوز
ہوگئے۔ آج احتساب اور لوٹی دولت کے حوالے سے کسی فورم پر بات سننے کو نہیں ملتی، سیاسی جماعتوں کی طرف سے بنائے گئے بیانیے دفن ہوچکے ہیں، جن کی بنیاد پر عوام کو آپس میں تقسیم کیا گیا، تحریک انصاف نے چیف جسٹس کی بحالی کے بعد اپنی سیاسی اڑان بھرنے کے بعد 2018میں حکومت تو بنا لی لیکن عمران خان کے طرز سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ ان کی حکومت میں وہی افراد شامل تھے جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ تھے، خان صاحب نے مدینہ کی ریاست، نیا پاکستان اور این آر او نہیں دوں گا جیسے بیانیے اپنائے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے، چیف جسٹس کی بحالی کے دوران میاں صاحب کو موصول ہونیوالی ٹیلی فون کال کی اہمیت کو سمجھ گئے لیکن سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو نظرانداز کیا گیا، جس کا نتیجہ ان کو حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اسمبلی میں بلاول بھٹو کے لفظ ’’سلیکٹڈ‘‘ نے عمران خان کے بیانیے پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے، مولانا فضل الرحمان اور زرداری صاحب کی پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد نے بالآخر خان حکومت کو رخصت کر دیا، صدر غلام اسحاق خان نے زرداری صاحب کو دو سال قید میں رکھا، نوازشریف اور مشرف دور میں نو سال اور عمران خان حکومت نے بھی انہیں قیدی بنایا، بارہ سال جیل میں رہنے والے آصف علی زرداری کے احتساب سے اب تک کتنی رقم برآمد ہوئی؟ اس کا جواب آج تک کسی ادارے یا رہنما کے پاس نہیں، اتنی مشکلات کے بعد بھی جناب آصف علی زرداری کے جمہوری رویے میں سختی نہیں آئی بلکہ مفاہمت کی آبیاری کی گئی، آج وزیراعظم اٹھارہویں ترمیم کے
باعث سکون میں ہے وگرنہ 58(2)(b)کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی، یہ سیاسی فیض آصف علی زرداری کا ہے جو آج تمام سیاسی جماعتوں کو حاصل ہے، آج کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کوئی مثر بیانیہ نہیں، خان صاحب کا بیانیہ بھی دم توڑ چکا ہے، جو سیاسی غلطیاں ماضی کی حکومتوں نے کیں وہی غلطیاں خان قیادت نے بھی دہرائیں بلکہ چار ہاتھ آگے رہے، ہمارے ہاں کوئی لیڈر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن واحد آصف علی زرداری صاحب ہیں جنہوں نے جمہوریت کو سیاسی انتقام سمجھا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ جمہوری اور پارلیمانی سوچ کے حامل ہیں، جمہوریت میں ’’میں نہ مانوں‘‘ والا طرز عمل کامیاب نہیں ہوسکتا، ریاست پاکستان پر کسی ایک فرد یا جماعت کا بیانیہ مسلط نہیں ہوسکتا، ہمارے لیڈر ریاست کے قیام کا اصل مقصد سمجھ جائیں گے تو کسی بیانیے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، حکمرانوں نے قوم کو مضبوط معاشی پالیسی نہیں دی بلکہ اپنے سیاسی بیانیے کے پیچھے لگا رکھا ہے، تقسیم اور تفریق اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب سخت فیصلے ناگزیر ہیں، قانون کی بالادستی کیلئے سیاست دانوں کو ان بے بنیاد بیانیوں سے پیچھے ہٹنا ہوگا، اداروں کو قانون کے مطابق عمل کرنا ہوگا، معیشت کی بحالی اور غیرملکی قرضوں سے نجات کیلئے ایس آئی ایف سی کی طرف سے پالیسی مرتب کی جاچکی ہے، لسانی اختلافات اور سیاسی تفریق ختم کرنے کیلئے ان جعلی سیاسی بیانیوں سے چھٹکارا پانا ضروری ہے، گزشتہ چند سال میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ حکمت عملی نہیں، کوئی ایسی پالیسی نہیں جو قوم کو ڈلیور کرتی ہو۔ اس بار حکومت کی طرف جو اقدامات کئے جارہے ہیں یقینا چند ماہ میں معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی، دنیا کو سرمایہ کاری کیلئے مدعو کیا جارہا ہے جس سے نوجوانوں کو روزگار اور کاروباری سرگرمی میں اضافہ ہوگا۔ جھوٹے، بے بنیاد بیانے خود بخود اپنی موت مرتے جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button