ایچ اقبال ۔۔۔ ایک عہد تمام ہوا

تحریر : صفدر علی حیدری
ہمارا معاشرہ کتاب کو خرید کر پڑھنے کا کبھی بھی قائل نہیں رہا۔ ہاں کچھ لوگ انفرادی حیثیت میں کتب خرید کر اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنایا کرتے تھے اور اکثر لوگ کتابیں مانگ تانگ کر گزارا چلایا کرتے تھے۔
انہی دنوں کا ذکر ہے میں نے ایک بار اپنے دوست کے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر بے ساختہ کہا’’ کتاب ایک بہترین تحفہ ہے‘‘۔ وہ دوست کتاب چھینتے ہوئے بولا’’ ہاں مگر یہ پرائی ہے‘‘۔ اور اب تو سوشل میڈیا کے آنے سے پڑھنے سے ہم مطالعہ کتب سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہر لمحے میں کوئی نہ کوئی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ لوگ کرائے پر کتب لے جاتے تھے۔ ہم نے بھی اپنے بچپن میں وہیں سے کتب کرائے پر لے کر پڑھنا شروع کیا۔ شہزادے شہزادیوں کی کہانیوں سے ہوتے ہوئے ہم ٹارزن، عمر عیار، چلوسک ملوسک، آنگلو بانگلو، چھن چھنگلو وہاں سے ہوتے ہوئے عمران سیریز کی دنیا میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے ہماری ملاقات مظہر کلیم ایم اے سے ہوئی۔ اور بھی کئی لوگ عمران سیریز پر طبع آزمائی کر رہے تھے لیکن ہمیں جو لطف مظہر کلیم صاحب کی تحریر نے دیا وہ کوئی اور نہ دے پایا۔ صفدر شاہین، ایس قریشی، ایم اے ساجد، ایم اے پیر زادہ، خان آفریدی، ایس کرن، نغمہ صفی، نجمہ صفی، ایم اے راحت، سہیل اقبال، ایم ایس قادری کو بھی پڑھا مگر ان کے قلم میں وہ بات نہ تھی ۔
پھر پتہ چلا کہ ہم نے اصلی عمران سیریز تو پڑھی ہی نہیں۔ جی ہاں ابن صفی دی گریٹ کی عمران سیریز، جو اس سیریز اور فریدی حمیدی سیریز کے خالق تھے۔ ہم نے ان کی چند کتب پڑھیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی کے بس میں ان کی برابری کرنے کی اہلیت کہاں ؟۔
ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ لوگوں نے کسی اور لکھاری کے کردار پر ہاتھ صاف کیا ہو۔ ٹارزن، عمرو عیار، نک ویلوٹ، سپر مین جیمز بانڈ ۔۔۔ اور ناجانے کتنے کرداروں پر سب لکھاریوں نے ہاتھ صاف کیا۔ اسی طرح ابن صفی مرحوم کے تخلیق کردہ کرداروں پر بھی دو سو کے لگ بھگ لکھاریوں نے لکھا۔ ( ان میں ایک راقم الحروف بھی ہے جس نے عمران بٹہ عمران ناول لکھ مارا ) ظاہر ہے ابن صفی کو یہ بات کبھی اچھی نہیں لگی ہو گی۔ اصل مسئلہ تب ہوا جب وہ تین سال کے لیے بیمار ہو گئے اور ان کے کئی ش فرزند میدان میں آ گئے۔ انہوں نے ’’ این صفی ‘‘ کے نام سے لکھا۔ ان میں تقریبا سبھی عمران سیریز لکھے والے شامل تھے۔ لکھاری کھل پر تب سامنے آئے اور اپنے ناموں سے لکھنے کا آغاز کیا جب انیس سو اسی میں ابن صفی کا انتقال ہو گیا۔ اب لکھاری کھمبیوں کی طرح اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد دو سو کا ہندسہ چھونے لگی۔ اسی دوران ایک اور لکھاری سب بھی ہمارا سابقہ پڑا جس کا نام ہم جان کر شروع میں نہیں کیا۔ جی ہاں صاحب ’’ ایچ اقبال‘‘ ( ہمایوں اقبال ) یہ کراچی سے تھے۔ اتفاق سے جس لائبریری سے ہم ناول لیا کرتے تھے وہاں ایس قریشی صفدر شاہین اور باقی لکھاریوں کے مقابلے میں ایچ اقبال کے ناول کم کم دستیاب ہوتے تھے۔ ایچ اقبال کو جس نے پڑھا اس نے تعریف کی ( کہتے ہیں خود ابن صفی نے بھی۔۔ مگر یہ بات مبالغہ معلوم ہوتی ہے ) انہوں نے سچ میں اچھا لکھا۔ میں نے عمران سیریز کے دس نمایاں لکھاریوں کی فہرست مرتب کی ہے اس میں وہ شامل ہیں۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ ایک ڈائجسٹ کا اجراء تھا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ الف لیلہ ڈائجسٹ سب رنگ، سسپنس اور جاسوسی کا مقابلہ کرنے لگا۔ مگر افسوس وہ اسے زیادہ عرصہ چلا نہ پائے۔ ایچ اقبال1941ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ ایچ اقبال کے ناول نگار بننے کے پیچھے ایک مزیدار واقعہ ہے وہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ اُس دن برنس روڈ کی ’’ آنہ لائبریری‘‘ سے ابن صفی کا ناول نہ مل سکا تو کسی اور مصنف کا ناول لے لیا لیکن وہ اتنا غیر معیاری تھا کہ نسخہ پھاڑ دیا اور کہا اس کی قیمت مجھ سے لے لیں۔ اس سے اچھا ناول تو میں لکھ لوں۔ لائبریرین بولے کہ لکھیں، میں چھاپوں گا۔ اگلے دن ایک ناول ’’ مظلوم لٹیرے‘‘ لکھ کر انہیں دیا، ایک گھنٹے بعد لائبریرین گھر آ گئے اور بولے کہ بس اب تم لکھنا شروع ہو جائو، میں یہ ناول کتابت کے لیے دینے جا رہا ہوں ۔ اِس طرح اُس دن ’’ آنہ لائبریری‘‘ والے عبدالشافع شمسی ناشر اور میں ناول نگار بن گیا‘‘۔
ایچ اقبال اردو نے ہر طرح کے ناول لکھے جس میں جاسوسی، رومانوی، سائنس فکشن ناول بھی شامل ہیں۔ انہوں نے عمران سیریز اور جاسوسی دنیا اس پر بھی لکھا اور اپنا کردار پرمود بھی متعارف کرایا، پرمود شہرت کے حساب سے اردو جاسوسی ادب کا چوتھا بڑا کردار ہے۔ انہوں نے ایک تاریخی ناول بھی لکھا جس کا نام ’’ اورنگ زیب کے بعد سے بہادر شاہ ظفر تک‘‘ ہے۔ ان کا ایک کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے اپنا ایک کردار تخلیق کیا۔ یعنی ’’ میجر پرمود ‘‘ یہ کردار انہوں نے ایس قریشی کے ساتھ مل کر تخلیق کیا۔ بعد میں ان دونوں کی راہیں جدا ہوئیں اور وہ دونوں تمام عمر اس کردار کی تخلیق کا کریڈٹ لیتے رہے۔ اس کردار کو عمران جیسے مقبولیت نہ مل سکی کہ یہ کوئی جینوئن کردار نہ تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کردار پر کئی نامور لوگوں نے بھی لکھا جو عمران سیریز لکھ رہے تھے، جیسے مظہر کلیم، ظہیر احمد، خالد نور، صفدر شاہین وغیرہ۔ اس کردار پر سب سے بھونڈا صفدر شاہین نے لکھا۔ ان کے ہر دوسرے ناول میں پرمود گھس آیا کرتا تھا۔ جیسے وہ کنگز روڈ کے فلیٹ نمبر دو سو ایک میں مقیم ہو۔ انہوں نے عمران سیریز کے 42ناول لکھے۔ انہوں نے جاسوسی ڈائجسٹ سن 2000کی دہائی میں 30اقساط پر مشتمل ہے ’’ مستقبل شناس ‘‘ نامی ایک سلسلہ وار ناول لکھا جو بڑا مقبول ہوا۔ مجھے ذاتی طور پر ان کا یہ ناول سب سے زیادہ پسند آیا۔ ایچ اقبال کے ٹوٹل کتنے ناول ہیں یہ بات خود ایچ اقبال خود بھی نہیں جانتے وہ کہتے ہے کہ اس معاملے میں، میں کافی لاابالی واقع ہوا، پھر میرا ریکارڈ ’’ کراچی آپریشن‘‘ کے زمانے میں کافی ضائع ہوا۔ میری زندگی خطرے میں تھی، بار بار نقل مکانی کے نتیجے میں کافی ناولوں کے نسخے محفوظ نہیں رہ پائے۔ یہاں کسی کتب خانے میں مکمل ذخیرہ نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ میرے 150ناول ہیں، لیکن میرے ایک مداح محمد حنیف ( کویت) کے ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد 136ہے، میں بھی اسے درست سمجھتا ہوں، میرے پاس اپنے صرف 20، 25ناول ہی ہیں۔ اصلی اور نقلی ’’ ایچ اقبال‘‘ کی پہچان ناول پر درج پتا ہے۔ جبکہ دہلی میں چھپنے والے جعلی ناولوں کی کسوٹی کوئی نہیں۔ میرے ناول ہندوستان میں خوب چھپ رہی ہیں۔ 1980ء میں ہندوستان گیا تو ایک کتب خانے میں ہزار سے زائد اردو اور ہندی کے ناول اپنے نام مع تصویر پائے! حالاں کہ تب تک 125ناول لکھے تھے، وہاں ہر ناول پر ’’ اصلی ایچ اقبال‘‘ لکھا ہوا تھا۔
وہ اپنے ناول دربارہ پبلش کرانا چاہتے تھے، لیکن کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اب تک ان کا ایک ہی ناول دوبارہ پبلش کیا گیا ہے جس کا نام قیامت کی رات ہے۔ ادبی دنیا میں، آفتاب سری ادب جناب ابن صفی مرحوم کے بعد جو نام لیا جا سکتا ہے وہ مظہر کلیم ایم اے کا ہے۔ باقی جتنے بھی ہیں وہ سب ان کے بعد آتے ہیں۔ ہمایوں اقبال مظہر کلیم کے بعد سب سے نمایاں ہیں۔ انہوں نے ابن صفی کے تخلیق کردہ کرداروں، کرنل فریدی اور عمران، پر کئی ناول لکھے ۔1972ء کے ارد گرد انہوں نے ’ الف لیلہ ڈائجسٹ‘ کا اجراء کیا اور بہت جلد ہی اسے اس وقت کے بہترین ڈائجسٹوں ( سب رنگ، جاسوسی، سسپنس) کے ہم پلّہ کر دیا۔ انہوں نے ایک سلسلہ وار کہانی ’’ چھلاوہ‘‘ لکھی، جو قارئین میں بے حد مقبول ہوئی۔ کہانی خاصی بولڈ تھی سے میں اسے پڑھ نہیں سکا۔ ہمایوں اقبال صاحب کو موسیقی اور گانے کا بھی بڑا شوق ہے۔ انہوں نے ’’ابجدِ موسیقی‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ گانے کی دنیا میں وہ مرحوم خان صاحب مہدی حسن کے شاگرد رہے ہیں۔ ہمایوں اقبال صاحب کی مرحومہ بیگم جنہیں وہ چندا کے نام سے یاد کرتے ہیں، چند سال پہلے انتقال کر گئیں۔ انہیں بھی گانے سے خاصہ لگائو تھا اور وہ بہت عمدہ گاتی تھیں۔ ایک دو گانہ ’ یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے ‘ اقبال صاحب اور ان کی بیگم مرحومہ کی آواز میں یو ٹیوب پر موجود ہے۔ ڈائجسٹوں کے پرانے قارئین الف لیلیٰ ڈائجسٹ نہ بھولے ہوں گے۔ پچھلی صدی کے آٹھویں، نویں عشرے میں الف لیلیٰ ڈائجسٹ کا طوطی بولتا تھا۔
ایچ اقبال، ابن صفی کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ انہوں نے 1960ء میں ابن صفی کے کرداروں فریدی اور عمران سی ناول نگاری کا آغاز کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ابن صفی بیمار تھے۔ 1963ء جب ابن صفی نے ناول نگاری کا آغاز دوبارہ کیا تو ایچ اقبال نے ابن صفی کے کرداروں پر لکھنا چھوڑ دیا لیکن بقول ایچ اقبال کے ابن صفی نے خود ان کو کہا کہ وہ ان کے کرداروں پر لکھنا بند نہ کریں۔
ابن صفی اور ایچ اقبال کی خط و کتابت بھی ہوتی رہی ہے۔ جب ایچ اقبال نے اپنا رسالہ ’’ الف لیلہ ڈائجسٹ‘‘ متعارف کرایا تو اس میں ہر ایک سال بعد ابن صفی نمبر بھی رکھا۔ ایچ اقبال ابن صفی سے کتنی محبت کرتے ہیں آپ کو ان کے ناول ’’ تصویر کی موت‘‘ کا یہ پیش لفظ پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا: ’’ آفاق صاحب! ۔۔۔ آپ نے ابنِ صفی صاحب کو میرے ساتھ کھڑا کر کے اُن کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس طرح آپ اُن کو اُن کی سطح سے بہت نیچے لے آئے ہیں۔ وہ بہت بلندی پر ہیں آفاق صاحب!۔۔۔ میں اب تک اُن کی گَرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔ حقیقتاً صرف وہی ایک واحد ہستی نظر آتی ہے جس نے جاسوسی ناولوں کو بھی ادبی چاشنی سے معمور کیا ہے۔ اُن کی اس فنکارانہ چابک دستی سے صرف اُن کافروں کو انکار ہو سکتا ہے جو ایک چوپال بنا کر ادب کے ٹھیکے دار بن گئے ہیں۔ اور ان کو غالباً اس لیے انکار ہے کہ اُس بلندی پر اُن کے بال و پر جل جاتے ہیں جہاں ابنِ صفی کو رسائی حاصل ہے، ابن صفی کے ناول ’’ برف کے بھوت‘‘ کا ابتدائی جملہ ملاحظہ فرمایئے۔’’ موسمِ بہار کا آخری پرندہ بھی دردناک آوازوں میں کراہتا ہوا اُڑ گیا‘‘۔
آج کل کے ٹھیکے دارانِ ادب پر نظر ڈالتا ہوں تو اُن میں کوئی بھی ایسا نہیں نظر آتا جو موسم بہار کے منظر کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ ایک جملے میں سمیٹ سکے۔ صفحات کے صفحات سیاہ کر کے بھی اس جملے کے حُسن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ایچ اقبال بنیادی طور پر ناول نگار ہیں، بطور خاص جاسوسی ادب میں ان کا نام بہت بلند ہے۔ انہوں نے تاریخی ناول بھی لکھے ہیں لیکن موصوف موسیقی میں بھی اتنی ہی جانکاری رکھتے ہیں جتنی کہ جاسوسی اور تاریخی ناولوں میں۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھیں فن موسیقی پر عبور حاصل ہے۔ موسیقی پر اور بھی لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں لیکن وہ سب ان کے لیے ہیں جو موسیقی سے واقف ہیں، وہ لوگ جو گانا سیکھتے ہیں اور وہ لوگ جو موسیقی کے اسرار و رموز سے سادہ الفاظ میں واقفیت چاہتے ہیں ان کے لیے جو مبتدی ہیں ان کی کتاب’’ ابجد موسیقی‘‘ بہت کار آمد ہے۔مہدی حسن نے اس کتاب کے بارے میں بجا طور پر فرمایا ہے: ایچ اقبال نے ابجد موسیقی کے نام سے یہ کتاب لکھی ہے۔ بلاشبہ اقبال صاحب کی یہ محنت قابل ستائش ہے۔ ایک ناول نگار اور کہانی کار ہوتے ہوئے موسیقی پر اتنی ماہرانہ دسترس واقعی لائق ستائش ہے۔
ایچ اقبال نے چومکھی لڑائی لڑی ہے۔ ایک طرف جاسوسی ناول، دوسری طرف موسیقی، تیسری طرف تاریخی ناول اور چوتھی طرف شاعری۔ موصوف کے شعری مجموعہ کے عنقریب منظر عام پر آنے کی نوید ہے۔
جب الف لیلہ نے عروج پکڑا تو ایچ اقبال پر دولت کی برسات ہوگئی، انہوں نے نارتھ ناظم آباد میں ’’ چیل والی کوٹھی‘‘ کرائے پر لی اور اس کے ساتھ ہی اسے شاہانہ انداز سے فرنش کرنا بھی شروع کر دیا۔ بیشتر عام آسائش کی چیزیں تھیں جیسے کہ قالین بیڈ یا صوفے۔ لیکن ایک تو انہوں نے جاپانی ’’ اکائی‘‘ کا بیش قیمت میوزک سسٹم خریدا جس کی حسرت ہم خواب میں بھی نہ کرتے۔ دوسرے انہوں نے بہت بڑی اور شاندار کھانے کی میز بنوائی۔ آخری چیز جو وہ خرید سکتے تھے گاڑی تھی۔ سو انہوںنے بالکل نئے ماڈل کی چھ ہاتھ لمبی سرخ ٹویوٹا مارک ٹو خرید لی۔
ہمایوں اقبال لا ولد تھے۔ ڈائجسٹ کی اشاعت کم ہوئی اور وہ بند ہو گیا تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کلفٹن پر بیوی کے ساتھ ایک کرائے کے چھوٹے سے گھر میں چلا گئے، جو ایک بیکری کے اوپر بنا ہوا تھا مگر رکھ رکھائو میں ان کی وضع داری برقرار رہی۔ کہانیاں لکھنے کا فن خدا داد تھا۔ معراج رسول مرحوم کبھی کبھی اس کی کہانی شائع کر دیتے تھے اور یوں بھی خاموشی سے سب کی مدد کرنا ان کی فطرت تھی، میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کبھی خط کتابت بھی نہیں رہی۔ ہاں فیس بک پر کے ذریعے ان سے ہیلو ہائے ہوئی۔ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کا حال لکھ رہے تھے۔ مجھے اس قسط وار تحریر کا انتظار رہتا تھا۔ وہیں ان کی پوسٹ پر وہ کبھی کبھار میری کسی بات کا جواب دے دیا کرتے تھے۔ ان کی بیوی کے انتقال کے انھیں سچ میں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اس غم کو بھلا نہیں پا رہے تھے۔
پیرانہ سالی میں ہمایوں اقبال صاحب کو بیماری سے جنگ لڑنی پڑی۔ آنکھیں کمزوری ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے دن بھر ایک صفحہ لکھ پانا بھی مشکل ہو گیا۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آنکھوں پر زور دینا بھی ان کے لیے مناسب نہیں تھا۔
سو وہ داستان ادھوری ہی رہی
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
خدا مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا