سوال یہ ہے: کیا وہ سیکھیں گے؟

تحریر : عقیل انجم اعوان
77 برس بیت گئے ہم پر ایسے افراد نے حکمرانی کی ہے جو طاقت کو خدمت کے بجائے تکبر کے طور پر استعمال کرتے رہے ۔ چاہے وہ سیاستدان ہوں، فوجی، عدلیہ یا بیوروکریسی جنہیں اختیار سونپا گیا انہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد کو پاکستان پر ترجیح دی۔ اس بے لگام خود غرضی نے ایک ایسے نظام کو جنم دیا جہاں ادارے کمزور ہوتے گئے کرپشن پروان چڑھتی گئی اور عوام مشکلات میں مبتلا ہوتے رہے۔ آج پاکستان جس بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ قیادت کی یہی ناکامی ہے اقتدار کو عارضی سمجھنے سے انکار اور حکمرانی کو خدمت کے بجائے طاقت کے طور پر اپنانا۔ سیاستدانوں نے ہمیشہ عوامی خدمت کے وعدے پر اقتدار حاصل کیا مگر بعد میں اپنی جیبیں بھرنے اور اداروں کو اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے طاقت کو دولت اکٹھی کرنے، اقربا پروری اور کرونی ازم کو فروغ دینے اور احتساب سے بچنے کے لیے استعمال کیا۔ جب یہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ہر ممکن طریقے سے دوبارہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بیرون ملک پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کچھ پس پردہ سودے بازی کے ذریعے واپسی کی راہیں نکالتے ہیں۔ سیاستدانوں نے ادارے بنانے کی بجائے سیاست کو اپنی بقا کا کھیل بنا دیا ریاست کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا اور آمریت و مظلومیت کے درمیان جھولتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس سے مختلف نہیں وہ جو خارجہ پالیسی، معیشت، اور اختلاف رائے کو دبانے کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں وہ خود کو قانون سے بالاتر اور ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں۔ 2000ء کی دہائی کے ایک رہنما نے حکمرانی کے ہر پہلو کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ وہ اپنے عروج پر اداروں کی تشکیلِ نو کرتے رہے اور سیاسی مخالفین کے مقدر کا فیصلہ کرتے رہے۔ لیکن جب ان کا وقت ختم ہوا تو انہیں جلاوطنی میں اپنی باقی زندگی گزارنی پڑی، دور اس سرزمین سے جس پر وہ کبھی حکمرانی کرتے تھے۔ ان سے پہلے اور بعد میں آنے والے بھی جو خود کو ناقابلِ احتساب سمجھتے تھے، آخرکار بے وقعتی اور گمنامی کے شکار ہو گئے۔ عدلیہ بھی اس روش سے مستثنیٰ نہیں۔ کئی چیف جسٹس ایسے آئے جنہوں نے اپنے عہدے کی دوران عدالتی فیصلوں کے ذریعے قومی بیانیہ طے کیا اور سیاست پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ کچھ خود کو’’ قانون‘‘ سمجھنے لگے، لیکن جیسے ہی ریٹائر ہوئے ان کی طاقت ختم ہو گئی۔ ایک سابق چیف جسٹس جو عدالتی فعالیت کا چہرہ سمجھے جاتے تھے آج تنازعات کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کے کارنامے عدالتی اصلاحات کے بجائے اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں کیونکہ ان کے فیصلوں میں عاجزی کی کمی تھی۔ یہ مسئلہ صرف حکومت کے اعلیٰ عہدوں تک محدود نہیں بلکہ ہماری بیوروکریسی بھی اسی بیماری کا شکار ہے۔ ضلع کے کمشنر سے لے کر بلدیاتی افسروں تک، پولیس کے سربراہوں سے لے کر تھانوں کے انچارج تک سب نے اقتدار کو ذاتی فوائد کے لیے استعمال کیا۔ اپنے دور میں وہ بادشاہوں کی طرح حکمرانی کرتے رہے اور جب انہیں نظر انداز کر دیا گیا تو پنشن کے لیے ترستے رہے۔ ان سب نے ملک کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں قیادت ذمہ داری کا دوسرا نام ہے نا کہ اختیار کا۔ وہاں اقتدار کے ساتھ جوابدہی جڑی ہوتی ہے تاکہ کوئی بھی سیاستدان، جج، یا سرکاری افسر قانون سے بالاتر نہ ہو۔ سب سے زیادہ معزز سیاستدان، جج، اور بیورو کریٹس طاقت کے ساتھ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ ایک مضبوط احتسابی نظام انہیں عوام کے لیے قابلِ رسائی اور جوابدہ بناتا ہے تاکہ وہ حکمرانی کو ایک استحقاق نہیں بلکہ ایک خدمت سمجھیں۔ یہ تضاد حیران کن ہے کیونکہ قیادت میں عاجزی اسلام کا بنیادی اصول ہے لیکن پاکستان جو ایک اسلامی جمہوریہ ہے نے اس قدر کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا ہے۔ قرآن تکبر کے خلاف خبردار کرتا ہے اور رہنمائوں کو یاد دلاتا ہے کہ حقیقی طاقت عاجزی میں مضمر ہے۔ مگر پاکستان میں حکمران عوام کی حالت زار پر توجہ دینے کے بجائے پرتعیش زندگی گزارنے میں مگن رہتے ہیں جبکہ ملک معاشی عدم استحکام، کرپشن اور بدانتظامی کے باعث مشکلات میں گھر جاتا ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات، ادارہ جاتی ناکامیاں اور سماجی ناانصافیاں دراصل اس قیادت کا نتیجہ ہیں جو عاجزی سے عاری ہے۔ ایک قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جب اس کے حکمران اقتدار کو ذاتی فوائد کے لیے استعمال کریں، بجائے اس کے کہ وہ اسے عوام کی خدمت کے لیے ایک ذمہ داری سمجھیں۔ اقتدار کے لالچ اور خود غرضی کے اس نہ ختم ہونے والے چکر نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے حکمرانوں کو اپنے انجام کی کوئی پروا نہ ہو۔ اب راستہ واضح ہے۔ پاکستان میں اقتدار کے ساتھ جوابدہی ضروری ہونی چاہیے اور قیادت میں عاجزی کا تصور عام ہونا چاہیے۔ یہ اصول نا صرف ہماری تاریخ اور مذہب میں گہری جڑیں رکھتا ہے بلکہ ہماری بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اگر پاکستان کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے تو اسے قیادت میں عاجزی کی کھوئی ہوئی خوبی کو واپس لانا ہوگا۔ فیصلہ واضح ہے خود کو تباہی کی راہ پر ڈالے رکھنا یا خدمت، دیانت داری اور عاجزی کے اصولوں کو اپنانا۔ پاکستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا ہمارے حکمران یہ سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے: کیا وہ سیکھیں گے؟