پنجاب ایسڈ کنٹرول ایکٹ 2025

تحریر : فیاض ملک
ناکامی، کسی بھی قسم کی ہو، انسان کے اندر منفی جذبات بھر دیتی ہے جس کے نتیجے میں سب سے پہلے وہ ماحول کو پھر اپنے سے جڑے رشتوں کو اور پھر تقدیر کو مورد َ الزام ٹھہرانا شروع ہوجا تا ہے، خون میں منفیت کی مقدار کم ہو تو انسان صرف خود سے ہی انتقام تک اکتفا کرتا ہے، جیسے کہ اپنی زندگی برباد کر نا اور اگر ناکامی کی شدت زیادہ ہو تو زندگی کو ختم ہی کر لینا، لیکن اگر یہ منفیت، آخری حدوں کو چھو جائے تو وہ دوسروں سے بھی انتقام لیتا ہے، جس کی سب سے کمزور حالت، بددعا دینا اور سب سے طاقتور، جان سے مار دینا اور درمیانی حالت جو سب سے زیادہ اذیت ناک ہے وہ یہ کہ دوسرے کی زندگی ایسی کر دینا کہ وہ نہ زندہ میں رہے نہ مردوں میں، اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی سے اس کی شناخت ہی چھین لی جائے، اس کا چہرہ نوچ لیا جائے۔ چہرے سے انسان کی پہچان اور شناخت ہے اور کسی کا چہرہ بگاڑنا یا اسے مسخ کرنا انتہائی قبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے، اس جدید دور میں انسان آج بھی جاہلانہ رسم و رواج اور طور طریقوں میں جکڑا نظر آتا ہے جس کی واضح مثال تیزاب گردی کے ذریعے معصوم، خوبصورت اور جاذب نظر چہروں کو نشانہ بناکر ان کو زندہ درگورکردینا ہے۔ تیزاب گردی کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ آج بھی سب سے بڑا مسئلہ اور ایسا قبیح فعل ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، تیزاب گردی ایسی ہی سوچ اور رویہ کا نتیجہ ہو تی ہے۔ نفرت اور غصے سے جب کوئی کسی کے منہ پر تیزاب پھینکتا ہی تو یہ اسی حالت کا نتیجہ ہو تا ہے جس میں نفرت کرنیوالا اپنے دشمن کو آسان موت بھی نہیں دینا چاہتا، وہ اسے اپنے سامنے سسکتے ہوئے، تڑپتے ہوئے، پچھتاوے میں جھلستا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جب کوئی کسی سے کسی کا چہرہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو یہ انتقام کی بدترین سٹیج ہو تی ہے، ویسے تو تیزاب گردی کی کئی وجوہات ہیں لیکن زیادہ تر خاندانی جھگڑے، نفسانی خواہشات، رشتے میں ناکامی یا خاندانی عداوت وغیرہ بنتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ ہماری شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے یا کسی کی نظربد کا یا ان دونوں وجوہات کی وجہ سے وطن عزیز ایک طویل عرصے سے مختلف ’’ گردیوں ‘‘ کا شکار ہے، سیاسی دہشت گردی، غنڈہ گردی اور بھتہ گردی کے ساتھ ساتھ ایک ’’ تیزاب گردی‘‘ بھی ہے جو قتل سے بھی زیادہ خوفناک جرم ہے، قتل میں تو آدمی کو گولی لگی اور وہ ختم ہو گیا تمام دنیاوی مصائب سے چھٹکاراہ حاصل کر گیا لیکن تیزاب گردی وہ خوفناک عمل ہے کہ اس کا شکار مرنے سے بھی بچ جاتا ہے اور ساری عمر کیلئے نہ صرف بیکار ہو جاتاہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی ناکارہ ہو جاتا ہے، معاشرہ بھی انہیں قبول نہیں کرتا، انسان یہ دیکھ کر پریشان ہو تا ہے کہ ایک مہذب معاشرے کے لوگ درندگی کے اس درجے تک بھی گر سکتے ہیں کہ بے گناہ لوگوں کی زندگیاں جیتے جی جہنم بنا دیں، پاکستان میں تیزاب گردی سے متعلق سخت قانون موجود ہے، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 336اس سے متعلق بات کرتی ہے، یہ دفعہ کہتی ہے کہ کوئی شخص تیزاب وغیرہ جیسے کسی خطرناک مادے سے کسی کے جسم کو نقصان پہنچائے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون، جس طرح جلایا گیا ملزم کو بھی اسی جگہ سے اسی مادے کے ساتھ جلایا جائے۔ تاہم اگر قصاص پر عملدرآمد نہ ہوسکے تو پھر تعزیر کے تحت عمر قید یا کم از کم 14 سال قید کی سزا دی جائے گی اور کم از کم 10لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ پینل کوڈ کا سیکشن 336بی اس سزا سے متعلق بات کرتا ہے۔ تیزاب پھینکنے کا جرم قابل صلح نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ شخص مجرم کو معاف کر بھی دے تو ریاست اور قانون اسے معاف نہیں کرے گا اسے لازمی سزا دی جائے گی۔ اس باوجود اگر دیکھا جائے تو تیزاب گردی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تیزاب بازار سے آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے، ذرا ذرا سی تلخی پر نوجوان تیزاب گردی کو بہترین بدلہ سمجھتے ہیں۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت پنجاب کا تیزاب گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے ایک بڑا مثالی اقدام اٹھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی طرز کے پہلے پنجاب ایسڈ کنٹرول ایکٹ 2025کے ڈرافٹ کی منظوری دیدی، واضح رہے کہ اس سے قبل تیزاب کی نقل و حمل، ذخیرہ، خرید و فروخت کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے تیزاب گردی کے شکار افراد کی زندگیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اس سنگین جرم کو مدنظر رکھتے ہوئے تیزاب کے
خرید و فروخت کے کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نیا قانون لایا جا رہا ہے۔ مجوزہ ایکٹ میں تیزاب کی 30اقسام کو ریگولیٹ کیا گیا ہے، جس کے مطابق اس نئے قانون میں ناصرف بغیر لائسنس تیزاب کی فروخت کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ پنجاب میں تیزاب کی غیر قانونی فروخت پر 3سال قید اور 5لاکھ تک جرمانہ ہوگا، اسی طرح لائسنس کے باوجود فروخت میں لاپرواہی برتنے پر 2سے 5سال قید اور 2سے 10 لاکھ جرمانہ ہوگا، نئے قانون کے مطابق اب تیزاب گردی کے شکار افراد کو معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ اس قانون میں تیزاب کی پیکنگ، نقل و حمل اور فروخت کے دوران کنٹینر پر احتیاطی تدابیر واضح درج کرنا لازم قرار دیا گیا ہے، پیکنگ پر تیزاب کی قسم، حجم، مقدار، لائیسنس ہولڈر کی تفصیلات درج کرنا ہوں گی اور سرخ نشان کے ساتھ خطرے ہی علامت دینا لازم قرار دیا گیا ہے، اس قانون میں ڈپٹی کمشنرز کو تیزاب کے کاروبار کیلئے لائسنس دینے کی اتھارٹی دی گئی ہے۔ پنجاب ایسڈ کنٹرول ایکٹ 2025کے ڈرافٹ کی منظوری کا تمام تر کریڈٹ ایم پی اے حنا پرویز بٹ کو جاتا ہے جنہوں نے بطور پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا جبکہ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ پنجاب اور محکمہ قانون نے ایکٹ کا حتمی مسودہ تیار کیا اور پنجاب اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے پنجاب ایسڈ کنٹرول ایکٹ2025کی منظوری دی جس کے بعد قانون کو اسمبلی کے جاری سیشن ہی میں حتمی منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ منظوری کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب صوبہ بھر میں قانون کا اطلاق کرائے گا۔ اس حوالے سے حنا پرویز بٹ نے اس بل کی منظوری کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ تیزاب گردی روکنے کیلئے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے، خواتین پر تیزاب حملوں کی روک تھام پنجاب حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کیلئے حکومت سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے، خواتین کے تحفظ کیلئے قانون سازی میرا مشن ہے، خواتین کے حقوق کی قانون سازی جاری رکھوں گی۔ پنجاب ایسڈ کنٹرول بل خواتین کی سلامتی کی جانب اہم قدم ہے، تیزاب کی غیر قانونی فروخت اب برداشت نہیں کی جائے گی، ہر عورت کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔