Columnمحمد مبشر انوار

معدنیات کی جنگ

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
کرہ ارض پر جنگوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جب سے بنی نوع انسان کو اس کرہ ارض پر اتارا گیا ہے البتہ ان جنگوں کی نوعیت ہمیشہ مختلف رہی لیکن مطمع نظر اول روز سے ایک ہی نظر آتا ہے کہ کسی بھی صورت اپنا اختیار و اقتدار مضبوط رکھا جائے، کمزوروں کو اپنے زیر تسلط رکھا جائے، رعب و دبدبہ قائم رہے اور زبان سے ادا ہوئے الفاظ، قانون کا درجہ حاصل کریں، حکمرانی نظر آئے۔ بنی نوع انسان اپنے ابتدائی ادوار کی نسبت گزشتہ صدی میں تیز ترین ترقی پر گامزن رہا اور اس کے لئے اسے صنعتی پہیہ متحرک رکھنے کے لئے توانائی درکار تھی، جو مشرق وسطیٰ سے حاصل ہونے والے تیل سے پوری ہوتی رہی اور عالمی طاقتوں کی تمام تر پالیسیاں، مشرق وسطیٰ اور دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے گرد ہی گھومتی رہی ہیں اور تعلقات کی نوعیت بہرطور ناگزیریت کی بناء پر ہی رہی ۔ اس دوران نہ تو زندگی کی رفتار کم ہوئی اور نہ ہی جدت و ترقی میں کسی قسم کی کمی آئی بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ترقی کی رفتار کو پر لگ چکے ہیں اور ہر روز ایک نئی دریافت منظر عام پر آ رہی ہے اور ترقی کی اس رفتار سے ہم آہنگ ہونے کے لئے دن رات نت نئے تجربات کئے جا رہے ہیں تا کہ اس ترقی میں استعمال ہونے والی توانائی/ایندھن مستقلا حضرت انسان کو میسر رہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ تیل کے ذخائر بھی اب مسلسل استعمال سے کم ہو رہے ہیں اور ماہرین کے خیال میں چند مزید دہائیوں تک یہ ذخائر انسان کو میسر رہیں گے لہذا انسان مسلسل اس کوشش و کاوش میں سرگرداں ہے کہ جلد از جلد متبادل اور دیرپا توانائی کے حصول میں کامیاب ہو جائے، جس میں بہت حد تک کامیابی ہو بھی چکی ہے اور یوں مشرق وسطی یا دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں سے انحصار بہت حد تک کم ہو رہا ہے، تاہم جب تک متبادل توانائی کے لئے مزید نئے طریقے دریافت نہیں ہو جاتے، تیل سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی رہیں گی۔ بہرکیف حد تو یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستیں بھی اب متبادل توانائی کے حصول پر عمل پیرا ہو کر اپنے مستقبل کو محفوظ بنا رہی ہیں، اس ضمن میں سعودی عرب نے بیشتر علاقوں میں وسیع رقبہ پر سولر پینل لگا رکھے ہیں تا کہ سستی، مستقل اور بلا تعطل توانائی حاصل کی جا سکے۔ دوسری طرف زمین ہے کہ مسلسل نت نئی دھاتیں اپنے بطن سے اگل رہی ہے یا یوں سمجھ لیں کہ دن بدن نئے تجربات سے زمین میں چھپی دھاتوں کے راز اخفا ہو رہے ہیں، ان کی افادیت کھل کر سامنے آ رہی ہے اور انسان ان دھاتوں کی افادیت سے مستفید ہونے کے لئے بے چین دکھائی دیتا ہے جبکہ حکمران اور عالمی طاقتیں زیر زمین چھپی ان دھاتوں کے ذخائر کو ہر صورت اپنی گرفت میں لینے کے لئے بے چین ہیں تا کہ اپنی حاکمیت کو مستقبل میں بھی محفوظ رکھا جا سکے۔ اس چھینا جھپٹی میں ایک طرف مسلمہ عالمی طاقت ہے تو دوسری طرف ایک ابھرتی ہوئی بلکہ ابھر چکی طاقت کی نظریں بھی ان معدنیات پر ہیں گو کہ نئی طاقت کو تاحال اپنی حیثیت مسلمہ طور پر ثابت کرنے کا موقع نہیں ملا مگر قرآئن اور حالات سے یہ ثابت ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر صرف وہی ریاست ہے جو موجودہ عالمی طاقت کی آنکھوں میں نہ صرف آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت و حوصلہ رکھتی ہے بلکہ موجودہ عالمی طاقت کی نظروں میں شدید کھٹکتی ہے۔ ترقی کی اس دوڑ میں جس ریاست کے پاس بھی نایاب معدنیات کا حصول ممکن ہو گا، اس ریاست کے ترقی کرنے کے امکانات دیگر ریاستوں کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گے بشرطیکہ اس ریاست کے پاس، جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہو، تحقیق کے مراکز بھی ہوں اور اس کے سائنسدانوں میں اہلیت بھی ہو، مستقبل قریب میں اس کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکے گا۔
اس وقت دنیا بھر میں ایسے نایاب معدنی ذخائر کا سراغ لگانے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے اور ترقی یافتہ ریاستیں اس سے بھرپور مستفید ہو رہی ہیں، بہتر مستقبل کے نقشے کھینچے جا رہے ہیں اور ان معدنی ذخائر تک رسائی کے منصوبوں پر عملدرآمد، انتہائی خاموشی، رازداری کے ساتھ جاری ہے۔ افریقہ میں یہ کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جبکہ دیگر کئی ایک ممالک میں بھی یہ کھیل انتہائی غیر محسوس طریقے سے جاری و ساری ہے اور ان ریاستوں کی حکومتوں اور اپوزیشن کے ساتھ موقع و محل کے مطابق تعلقات قائم ہیں کہ کسی بھی صورت معدنی وسائل کے حصول میں ناکامی نہ ہو ۔ آج کل پاکستان میں بھی معدنی ذخائر کا غلغلہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین اپنے اندر بے بہا قیمتی معدنی ذخائر سمیٹے ہوئے ہے، جس میں نایاب دھاتیں و پتھر بھی شامل ہیں، جس کا زیادہ تر منبع و ماخذ بلوچستان و گلگت و بلتستان و کے پی کی سرزمین تصور کی جاتی ہے ۔ بلوچستان میں قیمتی معدنی ذخائر کے حوالے سے تاحال ایک ہی علاقہ، ریکوڈک ، زیادہ معروف ہے کہ جہاں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن بوجودہ یہاں سے سونا نکالنے کا انتظام تاخیر کا شکار ہے۔ اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ہوس پرست و ذاتی مفادات کے تابع نااہل حکمرانوں نے، ریکوڈک سے معدنی ذخائر کے حصول میں جو معاہدہ کیا، اس میں ریاست پاکستان کے مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اونے پونے اتنے قیمتی ذخائر کی کان کنی کا معاہدہ کیا۔ انفرادی مفادات کو ترجیح دینے والوں کے لئے، قومی مفادات کی اہمیت اور اس کا تخمینہ لگانا ممکن ہی نہیں کہ چند ٹکے، بغیر کسی محنت کے وصول کرنے والوں کی کیا خبر کہ وہ ان چند ٹکوں کے عوض ریاست کا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں، وہ ریاستی مفادات کا تحفظ کیسے اور کیونکر کر سکتے ہیں؟ بدقسمتی سے اپنے ابتدائی چند سالوں کے بعد، ریاست پاکستان کو ایسے ہی ابن الوقت اور موقع پرستوں کی چیرہ دستیوں نے آج اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اتنے قیمتی ذخائر ہونے کے باوجود، ریاست پاکستان ان وسائل سے کما حقہ ثمرات سمیٹنے سے قاصر ہے۔ چین بلا شک و شبہ ہماری انتہائی قریبی دوست ہے لیکن ہمارے لچھن دیکھتے ہوءے، چین نے جو بھاری سرمایہ کاری پاکستان میں کی ہے، اس کی یقینی طور پر کوئی نہ کوئی وجہ تو رہی ہو گی، جو موجودہ صورتحال میں آشکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان کی زیر زمین چھپی دولت بتدریج دنیا پر عیاں ہو رہی ہے اور ساری دنیا للچائی نظروں کے ساتھ، پاکستان کے ان معدنی وسائل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا بھر کا مقروض ہے اور اعدادوشمار کے مطابق، سب سے زیادہ ’’ قرضہ‘‘ ہم پر چین کا ہے، جبکہ امریکہ کی جانب سے ہم پر قرض کے ساتھ ساتھ امداد بھی ملتی رہی ہے، جس کے عوض ہم ہمیشہ امریکہ کے زیادہ قریب رہے کہ وہ عالمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ، ہماری وفاداریوں سے بھی مستفید ہوتا رہا ہے۔ اس خطے میں کسی بھی امریکی طالع آزمائی میں ہم، کوڑیوں کے مول، اس کی فرنٹ لائن سٹیٹ بنے، اپنا انفرا سٹرکچر تباہ کروایا، اپنے بندوں کو شہید کروایا مگر ہمیشہ امریکی مفادات کی نگہبانی کی، ماسوائے جنرل ضیاء کے دور میں کہ جب جنرل ضیاء نے روس کے خلاف امریکی امداد کو ’’ مونگ پھلی‘‘ سے تشبیہ دی، تاہم اس دور میں بھی آڈٹ کے وقت اوجھری کیمپ کا سانحہ ہوا اور دی گئی امداد کا ریکارڈ بھی ساتھ ہی گیا۔ مراد یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، یہ قرین قیاس ہے کہ قدرت نے پاکستان کوایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے، لیکن حکمرانوں کی اہلیت اس پر ایک سوالیہ نشان کی طرح ہے کہ کیا یہ کوتاہ قد اشرافیہ، ماضی کے برعکس، اس موقع سے فائدہ اٹھا سکے گی؟ یا ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی ذاتی مفادات یا دبائو یا قرضوں کے بوجھ تلے دبے، مروتا اپنے معدنی وسائل کو اونے پونے، بڑی طاقتوں کے حوالے کر دے گی؟ شنید یہ ہے کہ نایاب دھاتوں کے ذخائر کا جو امکان پاکستان میں لگایا جا رہا ہے، ان کی چند کانوں کے عوض ہی پاکستان کا سارا قرض اتر سکتا ہے لیکن کیا ہمارے حکمران اس طرح کا مول تول کر پائیں گے یا انہیں اس کی ’’ اجازت‘‘ ہو گی؟ بہرکیف اس وقت ایک طرف امریکہ پاکستان کے معدنی ذخائر پر نظریں گاڑے ہوئے ہے تو دوسری طرف چین نے جتنا قرض پاکستان کو دے رکھا ہے، اس کی نظریں بھی ان وسائل پر ہیں کہ اگر پاکستان خود ان وسائل سے مستفید ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا تو پہلا حق چین کا ہے، معدنی وسائل کے حصول میں افریقہ، یوکرین اور باقی دنیا میں جنگ جاری ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس میں جیت کس کی ہوتی ہے کہ امریکہ سیاسی تانے بانے بن کر کامیابی چاہتا ہے جبکہ چین نے بھاری سرمایہ کاری ان ریاستوں میں کر رکھی ہے۔

جواب دیں

Back to top button