Column

بلیک میلنگ: جدید ڈیجیٹل دور کا ایک سنگین سماجی مسئلہ

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بلیک میلنگ، بطور جرم، انسانی معاشرے میں نیا نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ قدیم زمانے میں بھی افراد ایک دوسرے کو ذاتی راز، خطوط، تصاویر یا معلومات کی بنیاد پر ڈرا دھمکا کر مفادات حاصل کرتے تھے۔ تاہم ڈیجیٹل انقلاب نے اس روایتی جرم کو ایک خوفناک، پیچیدہ اور ہمہ گیر روپ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، اسمارٹ فونز، اور اب مصنوعی ذہانت جیسے جدید آلات نے ان جرائم کو نہ صرف آسان بنایا بلکہ ان کی رسائی اور اثرات کو بھی وسیع کر دیا ہے۔
جدید دور کی بلیک میلنگ میں مصنوعی ذہانت کا کردار کا ذکر سب سے اہم ہے۔ آج ہم جس تیزرفتار ڈیجیٹل دنیا میں زندہ ہیں، وہاں ذاتی رازداری ( پرائیویسی) خطرے سے محفوظ نہیں ہے۔ خصوصاً خواتین کے لیے یہ مسئلہ انتہائی حساس اور تکلیف دہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنی ذاتی ( غیر متنازعہ) تصویر کسی قریبی دوست، رشتہ دار یا کلاس فیلو سے شیئر کرے اور وہ تصویر کسی غلط ہاتھ میں چلی جائے، تو اب مصنوعی ذہانت کی مدد سے اس تصویر کو ایڈٹ کر کے بیہودہ اور فحش شکل میں پیش کرنا بلیک میلرز کے لیے ایک عام سی بات بن چکی ہے۔
یہ ایڈیٹ شدہ تصویریں نہ صرف متاثرہ شخص کی عزت، خود اعتمادی اور نفسیاتی سکون کو مجروح کرتی ہیں بلکہ بلیک میلر کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع بھی دیتی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ تکنیکی دفاع کی بھی ضرورت ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب جدید دنیا میں ایسے تکنیکی پلیٹ فارمز موجود ہیں جو متاثرہ افراد کی مدد کر سکتے ہیں۔ ان میں ایک اہم ویب سائٹ StopNCII.orgہے۔ اس سائبر سیکیورٹی پلیٹ فارم کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنی اصل تصویر اور ایڈٹ شدہ تصویر اپلوڈ کرکے ایک کیس بنا سکتا ہے۔ یہ ویب سائٹ تصاویر کی شناخت، تصدیق اور انٹرنیٹ سے مکمل حذف کرنے کے عمل کو مکمل رازداری اور اعتماد کے ساتھ انجام دیتی ہے۔ اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ عوامی شعور کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بلیک میلنگ، سائبر ہراسمنٹ اور ڈیجیٹل پرائیویسی کی خلاف ورزی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور ڈیجیٹل رائٹس فانڈیشن جیسے ادارے سرگرم عمل ہیں۔ کسی بھی متاثرہ شخص کو درج ذیل اقدامات فوری کرنے چاہئیں:
ڈیجیٹل رائٹس فانڈیشن پاکستان سے اس نمبر پر 080039393رابطہ کریں، ایف آئی اے کی سائبر کرائم ہیلپ لائن 9911پر کال کریں، شکایت ای میل کے ذریعے درج کریں helpdesk@nr3c.gov.pk
ملک بھر کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹرز کے ٹیلی فون نمبرز سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ متاثرہ افراد کو کبھی بھی تنہا یہ جنگ لڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ والدین، بہن بھائی، یا کسی قابل اعتماد فرد سے بات کرنا، ان کا اعتماد حاصل کرنا اور قانونی راستہ اختیار کرنا ہی اصل حل ہے۔ بلیک میلر کو خاموشی سے برداشت کرنا دراصل اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔
بلیک میلنگ کا شکار ہونا کوئی جرم نہیں، بلکہ خاموش رہنا اور بلیک میلر کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہنا اصل جرم ہے۔ جدید دور کا بلیک میلر صرف ٹیکنالوجی کا فائدہ نہیں اٹھا رہا بلکہ متاثرہ فرد کی خاموشی کو اپنا ہتھیار بنا رہا ہے۔
لہٰذا، معاشرے، میڈیا، والدین، تعلیمی ادارے اور قانونی ادارے سب کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مسئلے پر نہ صرف گفتگو کریں بلکہ شعور، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے بچوں کو محفوظ بنانے میں کردار ادا کریں۔

جواب دیں

Back to top button