ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افغان پناہ گزیں

امتیاز عاصی
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن افغان پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہ کرے گی۔ تعجب ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو پاکستان کے معاشی حالات اور یہاں ہونے والی دہشت گردی کی فکر نہیں جس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ افغان پناہ گزیں46 برس سے یہاں مقیم ہیں۔ کئی عشروں تک یہاں قیام کے باوجود افغان شہریوں کو اپنے وطن واپسی کے لئے کہنا پاکستان کے لئے جرم ٹھہرا ہے۔ کئی حکومتیں برسراقتدار رہیں کسی حکومت نے افغانوں کو ان کے وطن واپس کرنے کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جب کبھی انہیں واپس بھیجنے کا اعلان کیا تو بیرونی دبائو کا شکار ہو کر حکومت نے ان کی واپسی کا فیصلہ واپس لے لیا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرکے انصار مدینہ کی میزبانی کی یاد تازہ کر دی جس کے جواب میں ان مہمانوں نے ہمیں دہشت گردی کا تحفہ دیا۔ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں کسی کو ایک روز غیر قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں دی جاتی پاکستان واحد ملک ہے جہاں جب کوئی چاہئے داخل ہو کر قیام کر سکتا ہے۔ جس ملک میں تارکین وطن کے لئے نظام موجود نہ ہو ایسے ملکوں کا حال ہمارے جیسا ہوتا ہے۔ اب جب دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کی شناخت میں افغانی ملوث پائے گئے تو ہماری حکومت کو کڑوا گھونٹ پینے کی ضرورت پڑی۔ گو بین الاقوامی قانون کے تحت افغانستان پاکستان کی Libilityہے لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں مہاجرین کو وطن واپس نہ بھیجا جائے۔ آخر ایران میں بھی افغان پناہ گزینوں کو بھیجا گیا جہاں انہوں نے کسی کیمپ سے ایک افغان شہری کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے برعکس ہماری حکومتوں نے انہیں شہروں میں چھوڑ رکھا ہے جہاں وہ کاروبار کے ساتھ بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ وفاقی حکومت نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے انتظامات مکمل کر لئے ہیں اس مقصد کے لئے پشاور اور لنڈی کوتل میں کیمپ قائم کر دیئے گئے ہیں جن میں بیک وقت پندرہ سو مہاجرین کو رکھنے کی گنجائش ہو گی۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو افغان پناہ گزنیوں کے رہنے سے جرائم میں اضافہ اور
دہشت گردی کو ہوا ملی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا موقف اپنی جگہ اس لحاظ سے درست ہے دنیا کے بہت سے ملکوں کے شہری مختلف ملکوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں جنہیں اپنے ملک واپسی پر جانوں کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے والے حالات نہیں ہیں بلکہ وہاں کے حالات کافی حد امن قائم ہو چکا ہے۔ آخر افغان شہری پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں انہیں زندگیوں کے خطرات لاحق ہوں تو وہ آنا جانا ترک کر دیں۔ پاکستان کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے بہت سے یورپی ملکوں نے افغان پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد کئی لاکھ افغان اس امید سے وطن چھوڑ کر پاکستان آگئے جہاں سے انہیں دوسرے ملکوں میں جانا تھا لیکن بعد ازاں ان ملکوں نے ویزا دینے میں لیت و لعل کیا جس کے بعد افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ان ملکوں کے ویزوں کی امید پر پاکستان میں قیام کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ2019ء میں امریکی اور نیٹو فورسز کے افغانستان سے نکلنے کے بعد سے یورپی ملکوں کے ویزوں کی امید پر بہت سے افغان مہاجرین پاکستان میں قیام کئے ہوئے ہیں جس کے بعد نہ تو انہیں ان ملکوں کے ویزے ملے ہیں نہ ہی وہ وطن واپس گئے ہیں بلکہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے افغان مہاجرین کو کئی بار مملکت سے نکالنے کا اعلان کرنے کے باوجود اس پر شد و مد سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے بلکہ افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔ امریکہ نے افغانستان کی طالبان حکومت سے بات چیت کرکے کئی امریکیوں کو رہا کرا لیا ہے جس کے بعد اس بات کا قومی امکان ہے بہت جلد افغانستان میں امریکی سفارتخانہ کھل سکتا ہے۔ پاکستان ہارڈ لائن اسٹیٹ اسی صورت میں بن سکتا ہے جب اپنے کسی اعلان پر پوری قوت سے عمل درآمد کرے جیسا کہ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے سٹڈی ویزوں پر دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے طلبہ کو ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیا ہے۔ یہاں تک امریکہ کا گرین کارڈ رکھنے والوں سے بھی کہہ دیا گیا ہے انہیں کسی وقت بھی امریکہ سے نکالا جا سکتا ہے جو صدر ٹرمپ کی واضح پالیسی کا مظہر ہے۔ ایک ہمارا ملک ہے افغان مہاجرین کو ملک بد ر کرنے کی کئی بار ڈیڈ لائن دینے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہونا ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا عکاس ہے۔ افغان مہاجرین کے یہاں قیام سے مملکت میں جرائم کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ منشیات کی سمگلنگ ہو یا ڈالر ہر غیر قانونی کا م میں افغان مہاجرین ملوث پائے گئے۔ پاکستان میں جرائم پیشہ افراد نے کبھی فورسز پر فائرنگ نہیں کی مختلف جرائم میں ملوث افغان مہاجرین ہماری فورسز پر فائرنگ جیسے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کی مبینہ ملی بھگت سے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد چاروں صوبوں میں قیام پذیر ہے۔ یہ ہمارے سول اداروں کا کیا دھرا ہے لاکھوں افغان مہاجرین کو قومی شناختی کارڈ جاری گئے۔ جعلی شناختی کارڈ ہولڈروں کی اچھی خاصی تعداد مملکت کے مختلف شہروں میں کاروبار کر رہی ہے۔ اگر ہماری پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں مخلص ہو تو کوئی وجہ نہیں غیر قانونی افغان پناہ گزین قانون کی گرفت نہ لائے جا سکتے ہوں۔ میرے اپنے شہر راولپنڈی کے اردگرد کے علاقوں خصوصا صادق آباد میں ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی افغان رہ رہے ہیں۔ ہماری پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں مخلص ہوتی تو نگران حکومت کے دور میں جب افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے کا اعلان کیا گیا تھا تو صادق آباد میں مقیم ہزاروں مہاجرین کو نکالا جا سکتا تھا۔ یہ تو راولپنڈی کے ایک علاقے کی بات ہے کے پی کے اور بلوچستان افغان پناہ گزینوں سے بھر ا پڑا ہے۔ ہماری بقاء اسی میں ہے جیتنا جلد ہو سکے پناہ گزینوں سے وطن عزیز کو خالی کرایا جائے۔