ناراض بلوچ کو گلے لگایا جائے

شاہد ندیم احمد
اس وقت ملک کے دو حساس ترین صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں ،یہ دہشت گردی کوئی آج کی بات نہیں ہے ،یہ صورتحال کم و بیش چالیس سال سے ہے،اس کی شدت کبھی کم ہو جاتی ہے تو اس میں کبھی اضافہ ہو جاتا ہے، صوبہ خیبر پختون خوا اور صوبہ بلو چستان کی نوبت ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہی سہی ،مگر اس میں نشانہ قانون نافذ کرنے والے ،عام لوگ اورسیاسی ومذہبی اکابرین ہی رہے ہیں، اس کے سد باب کیلئے کئی آپریشن ہوئے ہیں ،اس کے باوجود دہشت گروں کاسد باب ہو سکا ہے نہ ہی دہشت گردی سے جان چھوٹ پارہی ہے ،اس کی کیا وجہ ہے کہ اس کا کوئی مستقل حل نکالنے میں حکمران ناکام نظر آتے ہیں، اس کے سیاسی و غیر سیاسی پہلوئوں پر سنجید گی سے غور کر نا ہو گا اور اپنی کو تاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے مکالمے کو ہی فروغ دینا ہو گا ،اس صورت میں ہی دہشت گر دی کے ساتھ دہشت گردوں پر بھی قابو پایا جاسکے گا اور ملک میں قیام امن لایا جاسکے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو، اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی جدوجہد کو ہی ہوتا ہے، لیکن اگر سیاسی عمل کے نام پر غیر منتخب نمائندہ لوگوں کو ہی منتخب نمائندے کے طور پر مسلط کیا جائے گا تو عوامی تائید حاصل ہو گی نہ ہی کسی مسئلے کا حل نکلا جاسکے گا، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی صورتحال کی ذمہ دار جہاں سیاسی قوتیں ہیں، وہیںغیر سیاسی فیصلے بھی کار فر ما رہے ہیں، اس حد تک صوبے کے حکمران پوری طرح ذمہ دار ہیں کہ پچھلی تین چار دہائیوں میں جو اربوں روپے کے پیکیج یا ترقیاتی فنڈز کے نام پر آتے رہے ہیں، اس کا درست استعمال ہوا نہ ہی کوئی منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے، یہ فنڈ کچھ بیورو کریٹس کے گھروں سے برآمد ہوئے اور کچھ لاپتہ ہو گئے، اس کا کوئی حساب لینے والاہے نہ کوئی حساب دے رہا ہے تو اس کے خلاف احتجاج ہی ہو گا اور تشدد میں اضافہ بھی ہو گا ۔
بلو چستان میں تک طرف سیاسی مزاحمتی تحریک جاری ہے تو دوسری جانب کچھ لوگ ملک مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ،اس گھمبیر اور حساس صورتحال کے پیش نظر صوبائی حکو مت نے ساری منفی سرگرمیوں میں ملوث سرکار و غیر سر کاری ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور تمام کمشنروں اور ضلعی افسروں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ایسے ملازمین کی نشاندہی کی جائے اور انھیں قانون کی گرفت میں لایا جائے، اس طرح کے فیصلے پہلے بھی کیے جاتے رہے ہیں ،ایک بار پھر کیے جارہے ہیں ،لیکن اس سے امن و امان آئے گا نہ ہی ریاست کی رٹ قائم ہو پائے گی ، جب تک کہ مسئلہ کی جڑ کو نہیں پکڑا جائے گا اور اس کا تدارک نہیں کیا جائے گا ، یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ریاست کے ہر ادارے اور ہر فرد کی جنگ ہے، اس جنگ کوسب نے مل کر ہی لڑنا ہے،لیکن ا گر خود ہی تفریق پید ا کی جائے گی تو معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگڑتے ہی چلے جائیں گے ۔
ہمیں ایسے حالات سے پہلے بھی واسطہ پڑچکا ہے،ان سے ہی سبق سیکھنا چاہئے اور اس کو ایک بار پھر نہیں دہرانا چاہئے ،بلوچستان میں روز اول سے ہی سیاسی مزاحمتی تحریک جاری ہے،سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ رہاہے کہ بلوچستان کے عوام کو حق حاکمیت اورساحل و وسائل پر اختیار دیا جائے ،یہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے کہ اس پر سنجیدگی اختیار نہ کی جائے اور اس پر سنجید گی سے غور نہ کیا جائے، لیکن اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے روکا جاسکتا ہے ،اس معاملے میں طاقت کے استعمال،تادیبی ضابطوں اور سخت کارروائیوں سے گریز ہی کرنا چاہئے ،بلوچستان کے ناراض لوگوں اور ریاست مخالف لوگوں میں تفریق کر نا ہو گی ،بلو چستان کے ناراض لوگوں کو دیوار سی لگا نے کے بجائے گلے سے لگانا ہو گا ،اس کا احساس محرومی ختم کر نا ہو گا اور اس کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہو گا،اس فار مولے کے علاوہ کوئی فار مولا نہیں چلے گا۔
اہل سیاست اور اہل سیاست کو بلو چستان کے محروم طبقے کے زخموں پر مرہم لگانا ہو گا ،انہیں اپنے ساتھ بیٹھانا ہو گا ، بلو چستان کی حقیقی قیادت کو آگے لانا ہو گا، اس صورت میں ہی ان کے اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کے گھنائونے عزائم ناکام بنائے جاسکتے ہیں، اس ملک کے پالیسی سازوں کو ایکشن کے بجائے جمہوری حل کی طرف ہی آنا چاہئے،بلو چستان کے ناراض لوگوں سے مکالمہ کر نا چاہئے اور ان کے بنیادی مطالبات پر بھر پور توجہ دینی چاہئے ،ایک عام بلوچ کے اندر جب تک احساس پیدا نہیں کیا جاتا کہ اس کے ساتھ ر یاست کھڑی ہے اور اس کے بنیادی حقوق دے رہی ہے، اس وقت تک اس کی سوچ کو علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف متحرک نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کو جتنا جلد تسلیم کرلیاجائے، اتنا ہی سب کیلئے بہتر ہے۔